خوشامدی علما، فرمائشی فتوے

تحریر : حامد میر

بشکریہ: روزنامہ جنگ

حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ایک جنگل سے گزر رہے تھے، اس جنگل میں پانی نہیں تھا۔ پیاس کی شدت بڑھ گئی تو ایک بادل نمودار ہوا بارش کے کچھ قطرے برسے لیکن پانی کی طلب برقرار رہی۔ پھر ایک نور ظاہر ہوا جو آسمان پر چھا گیا۔ اس نور میں سے ایک آواز آئی ۔ ’’اے عبدالقادر ! میں تیرا پروردگار ہوں، میں نے تمہارے لئے وہ سب حلال کردیا جو دوسروں کیلئے حرام ہے جو چاہے لے لو اور جو چاہے کرو‘‘۔ شیخ عبدالقادر جیلانی بولے۔اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ۔ انہوں نے کہا اےملعون دور ہو جا، یہ توکیا کہہ رہا ہے۔ اچانک وہ نور تاریکی میں بدل گیا اور آسمان پر دھواں چھاگیا۔ پھر آوازآئی۔ اے عبدالقادر! تو نے اللّٰہ تعالیٰ کے احکام اور اپنے روحانی مرتبے کی رفعت کے باعث میرے دائو سے نجات پا لی ورنہ میں اس حربے سے 70 اہل طریقت کو گمراہ کر چکا ہوں جنہیں دوبارہ ان کا مقامِ رفعت نصیب نہ ہوا۔ جواب میں شیخ عبدالقادر جیلانی نے کہا کہ میں نے اپنے علم اور روحانی مرتبے سے نہیں بلکہ اللّٰہ تعالیٰ کے فضل و احسان سےتیرے فریب کو پہچانا۔ علامہ ابن تیمیہ نے فتاویٰ ابن تیمیہ میں یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد لکھا ہے کہ غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی سے پوچھا گیا کہ آپ نے کیسے شیطان کو پہچانا؟ غوث الاعظم نے کہا کہ میں نے اسے اس کے قول سے پہچانا۔ جب شیطان نے کہا کہ میں نے تمہارے لئے وہ سب حلال کر دیا جو دوسروں کیلئے حرام ہے تو مجھے یقین تھا کہ حضرت محمدﷺ کی شریعت نہ تو منسوخ ہو سکتی ہے اور نہ ہی تبدیل ہو سکتی ہے۔ امام ابن تیمیہ جو سچ سمجھتے تھے اسے بیان کرنے سے خوف نہیں کھاتے تھے۔ حکمران اُن سے ناراض رہتے تھے۔ انہوں نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں اور آپ کا جنازہ سرکار کی جیل سے نکلا۔ علماء کو انبیا کا وارث کہا جاتاہے۔ علماء حق دنیاوی عہدوں کے پیچھے نہیں بھاگتے بلکہ حکمرانوں سے دور رہتے ہیں۔ امام ابوحنیفہ کو عباسی خلیفہ ابوجعفر عبداللہ بن محمد المنصور نے قاضی (چیف جسٹس) کا عہدہ پیش کیا۔ امام ابوحنیفہ نے خلیفہ کے سامنے انکار کرتے ہوئے کہا کہ میں اپنے آپ کو اس عہدے کے قابل نہیں سمجھتا۔ انکار سن کر خلیفہ نے غصے میں کہا کہ تم جھوٹ بولتے ہو۔ امام ابوحنیفہ کا جواب تھا کہ اگر میں جھوٹا ہوں تو پھر واقعی اس عہدے کیلئے نااہل ہوں۔ وقت کے متکبر حکمران کے سامنے انکار کرنے والے امام ابوحنیفہ کو جیل بھیج دیا گیا اور ان کے شاگرد ابویوسف کو قاضی بنا دیا گیا۔ جیل میں امام ابوحنیفہ کو کوڑے مارے جاتے تھے کہ وہ خلیفہ کا حکم تسلیم کرلیں لیکن امام ابوحنیفہ نے خلیفہ کی خواہش کے سامنے سر جھکانے سے انکارکر دیا۔ روایات کے مطابق ان کا جنازہ بھی جیل سے اٹھا۔ امام مالک بن انس نے بھی منصور کی اطاعت سے انکار کیا۔ انہیں گرفتار کرکے مدینہ میں سرعام کوڑے مارے گئے۔ امام جعفر صادق نے بھی منصور کی زبردستی اطاعت سے انکار کیا تو انہیں بھی گرفتار کرلیا گیا۔ امام احمد بن حنبل نے خلیفہ المامون کے درباری علماء کے کچھ فرمائشی فتوئوں کومسترد کیا تو حکمرانِ وقت نے اپنے ہاتھ سے ان کا سرقلم کرنے کافیصلہ کیا۔ اس سے قبل کہ المامون ان کاسرقلم کرتاحکمرانِ وقت کی موت واقع ہوگئی۔ اس کے مرنے کے بعد اس کا بھائی معتصم باللہ خلیفہ بن گیا۔ اس نے اپنے دربار میں امام احمد بن حنبل کے کپڑے اتروائے اور اپنے سامنے انہیں کوڑے لگوائے۔ امام احمد بن حنبل روزے سے تھے، کوڑے کھاتے کھاتے بے ہوش گئے لیکن حکمران ِوقت کے سامنے سر جھکانے سے انکار کردیا۔ بے ہوشی کی حالت میں انہیں رہا کردیا گیا۔ انہیں اسحاق بن ابراہیم کے گھر لایا گیا۔ ہوش میں آئے تو کہا گیا آپ کے جسم سے خون بہہ رہا ہے۔ روزہ افطار کرلیں۔ امام احمد بن حنبل نے جواب دیا کہ حضرت عمرؓنے بھی زخمی حالت میں نماز ادا کی تھی۔ انہوںنے نماز ظہر ادا کی۔ شام کو روزہ افطار کیا اور کوڑے مارنے والے جلادوں کو معاف کردیا۔ انہوںنے معاف نہیں کیا تو ان درباری علماء کو معاف نہیں کیا جنہوں نے حکمران وقت کی خوشنودی کیلئے فرمائشی فتوے دے کر شریعت کی خلاف ورزی کی۔

پابندیاں یا قوانین

امام شافعی سے امام موسیٰ کاظم تک اور مجدد الف ثانی سے شاہ ولی اللہ تک کئی علماء کے بارے میں ایسے واقعات بیان کئے جا سکتے ہیں جب انہوں نے حکمرانِ وقت کی خوشامد سے انکا رکیا۔ ان سب علماء اور صوفیوں کے کردار میں ایک مشہور حدیث نبویؐ کی جھلک نظر آتی ہے جس کےمطابق جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنا بہترین جہاد ہے۔ اپنی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں ہر دور میں ایسے علماء کی بہتات نظر آئے گی جو فرمائشی فتوئوں کے ذریعے اہل اختیار سے دنیاوی عہدے لے کر عوام کی نظروں میں گر جاتے ہیں۔ علامہ اقبال نے ایسے علماء کے بارے میں کہاتھا۔

خود بدلتے نہیں، قرآں کو بدل دیتے ہیں

ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق!

اللّٰہ کی کتاب مومن کو غلامی کے طریق نہیں سکھاتی بلکہ قرآن وسنت کی اطاعت کے ذریعے دنیاوی طاقتوں کی غلامی سے آزادی عطا کردیتی ہے۔ اللّٰہ سے ڈرنے والے ،ظالم و جابر حکمرانوں سے نہیں ڈرتے لیکن افسوس کہ آج ہمیں ایسے فتوے پڑھنے کو ملتے ہیں جن میں شرعی تقاضوں سے زیادہ حکمرانوں کی خواہشات ناچتی نظر آتی ہیں۔ بدقسمتی سے ہم سیاست کو کفر و اسلام کی جنگ بنا کر ایک دوسرے کے خلاف جھوٹے الزامات لگاتے ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کا کردار یہ ہے کہ ایک طرف سوشل میڈیا کو سب برائیوں کی جڑ قرار دیتے ہیں اور ایکس (ٹوئٹر) پر پابندی لگا رکھی ہے، دوسری طرف وزیر اعظم سے لے کر تمام وزرائے اعلیٰ اور حکومتی شخصیات بڑے دھڑلے سے ایکس کو استعمال بھی کر رہی ہیں۔ یہ صاحبانِ اختیار خود اپنی پابندیوں کی خلاف ورزی کیلئے وی پی این استعمال کرتے ہیں لیکن عوام الناس کو وی پی این کے استعمال سے روکنے کیلئے علماء سے فتوے جاری کروا رہے ہیں۔ اللّٰہ تعالیٰ کی کتاب میں کہا گیا ہے کہ : اے ایمان والو! ایسی بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں۔ اللّٰہ کے نزدیک یہ بہت ناراضگی کی بات ہے کہ تم ایسی بات کہو جو تم کرتے نہیں ہو‘‘۔ (سورہ الصف:2۔3)سوشل میڈیا پر جھوٹ اور فحاشی پھیلانا غلط ہے لیکن جن حکمرانوں کے اپنے قول و فعل میں تضاد ہو ان کے اعلانات پر ہم کیسے یقین کریں؟ ہمارے تمام اہلِ اختیار بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہوتے وقت حلف اٹھاتے ہیں، آئین سے وفا داری کا عہد کرتے ہیں۔ اللّٰہ کا حکم ہے کہ ’’اے ایمان والو! اپنے عہدوں کو پورا کرو‘‘ (سورہ المائدہ:1) علماء حق ایسے حکمرانوں کےبارے میں کیا کہیں گے جو اپنے عہد پورے نہیں کرتے اور وہ کہتے ہیں جو خود نہیں کرتے؟۔

Back to top button