لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل، انتخابی شیڈول جاری کرنے کا حکم

سپریم کورٹ نے آر اوز اور ڈی آر اوز سے متعلق لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو انتخابی شیڈول جاری کرنے کا حکم دے دیا۔چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سینیئر ججز سے چیف الیکشن کمشنر  سکندر سلطان راجہ کی ملاقات کے بعد الیکشن کمیشن کی جانب سے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کردی گئی جس پر سماعت جاری ہے۔

چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے سپریم کورٹ میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے ملاقات کی، ملاقات میں جسٹس سردار طارق اور جسٹس اعجازالاحسن بھی شریک تھے۔ اس کے علاوہ اٹارنی جنرل منصور عثمان بھی ملاقات میں شریک تھے۔ذرائع کا بتانا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر چیف جسٹس کی دعوت پر سپریم کورٹ آئے اور انہوں نے ججزکو لاہور ہائیکورٹ کے حکم امتناع سے آگاہ کیا۔

ذرائع کے مطابق چیف جسٹس پاکستان نے چیف الیکشن کمشنر سے ملاقات سے پہلے دو سینئر ججز سے بھی ملاقات کی، چیف جسٹس نے لاہور ہائیکورٹ کے آرڈر سے متعلق سینئر ججز سے مشاورت کی، مشاورت کے بعد اٹارنی جنرل اور چیف الیکشن کمشنر کو طلب کیا گیا۔الیکشن کمیشن نے لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا اور اپیل دائر کردی۔ اپیل میں لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کوکالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ 8 فروری کوانتخابات کرانے کے فیصلے پرعمل درآمد کرائے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ کیس کی سماعت کر ریا ہے جس میں جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس منصور علی شاہ شامل ہیں اور یہ سماعت براہ راست نشر کی جارہی ہے۔اپیل پر سماعت کے دوران چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی سے  استفسار  کیا کہ کیا جلدی تھی کہ اس وقت آنا پڑا؟ انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ انتخابات 8 فروری کو کرانے کے لیے آج درخواست لازم تھی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر میں فلائٹ پر نکل جاتا تو کیا ہوتا؟  خیر آئینی ذمہ داری ہے پوری کرنی ہے۔وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ  آراوز ڈی آر اوز بیوروکریسی سے لینے کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ لاہورہائیکورٹ نے نےمعطل کیا، لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے سے انتخابی عمل رک گیا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ آج کے بینچ کے حوالے سے وضاحت کرنا چاہتا ہوں، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کےتحت اب بینچز تشکیل دیے جاتے ہیں، میری خواہش تھی کہ موسٹ سینیئر ججز  بینچ میں شامل ہوں اور میں نے موسٹ سینیئر ججز کے نام بینچ کیلئے تجویز کیے تھے۔انہوں نے مزید کہا کہ جسٹس اعجاز الااحسن مصروفیات کے باعث نہیں آ سکے پھر ہم نے جسٹس منصور علی شاہ کو  تکلیف دی۔

وکیل الیکشن کمیشن نے مؤقف اختیار کیا کہ الیکشن کمیشن کی ریٹرننگ افسران کےلیے پہلی ترجیح اپنے افسران ہیں، ڈی آر اوز اور آر اوز کی فہرست حکومت دیتی ہے، پی ٹی آئی نے کہا ہے آئین کے آرٹیکل 218 تھری کے تحت شفاف الیکشن کرائے جائیں۔جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا آرٹیکل 218 تھری میں کچھ ایسا ہے کہ انتخابات شفاف نہیں ہو سکتے؟

وکیل الیکشن کمیشن نے بتایاکہ پی ٹی آئی کا مؤقف ہے آر اوز ڈی آر اوز کی تعیناتی کے لیے چیف جسٹس ہائیکورٹ سے مشاورت کی جائے، الیکشن کمیشن نے عدلیہ کو فروری میں جوڈیشل افسران کیلئے خط لکھا تھا، عدلیہ نے زیرالتوا مقدمات کے باعث جوڈیشل افسران دینے سے معذوری ظاہر کی تھی، اسلام آباد ہائیکورٹ نےجواب نہیں دیا، پشاور ہائی کورٹ نےکہاجوڈیشل پالیسی سازکمیٹی سےرجوع کریں۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ہائیکورٹ کے خط کے بعد درخواست گزار کیا انتخابات ملتوی کرانا چاہتے تھے؟

وکیل الیکشن کمیشن نے دلائل میں کہا کہ درخواست گزار کہتے ہیں انتظامی افسران کی آر او تعیناتی ہمیشہ کیلئے ختم کی جائے، درخواست میں استدعاتھی کہ الیکشن کمیشن کو عدلیہ سے ریٹرننگ افسران لینے کی ہدایت کی جائے۔جسٹس منصور علی شاہ  نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے پوچھاکہ یہ شق تو کبھی بھی چیلنج کی جاسکتی تھی، اب کیوں کی گئی؟  کیا لاہور ہائیکورٹ نے سندھ، کےپی اوربلوچستان کے آر اوز کا نوٹیفکیشن بھی معطل کردیا؟ مجموعی طور پرکتنے آروز اور ڈی آر اوز تقرر کیے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر الیکشن کمیشن بھی الیکشن نہ کرائے جوڈیشل افسران بھی نہ کرائیں تو پھر کون الیکشن کرائے؟ اس پر وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن کی اولین ترجیح عدلیہ سے ریٹرننگ افسران لینا ہی تھا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ وکیل پی ٹی آئی آخر چاہتے کیا تھے؟ ہائیکورٹ اپنی ہی عدالت کی خلاف رٹ کیسے جاری کر سکتی ہے؟ پی ٹی آئی کی درخواست پر ہی سپریم کورٹ نے انتخابات کا فیصلہ دیا تھا، عمیر نیازی کی ایک درخواست پر پورے ملک میں انتخابات روک دیں؟ عمیر نیازی کی درخواست تو سپریم کورٹ کے حکم کی توہین ہے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے قرار دیا کہ درخواست جمہوریت کو ڈی ریل اور سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی کی کوشش ہے،  کیا ہم توہین عدالت کی کارروائی کریں؟ درخواست گذار بیرسٹر عمیر خان نیازی کون ہیں؟  سجیل سواتی نے بتایاکہ درخواست گزار بیرسٹر عمیر خان نیازی کا تعلق پاکستان تحریک انصاف سے ہے۔

اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ کیا درخواست گزار نے پارٹی کی جانب سے مجاز ہونے کا سرٹیفکیٹ دیا؟ قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ اس کا مطلب ہے درخواست گزار عمیر نیازی الیکشن ہی نہیں چاہتے، تو کیا ہم توہین عدالت کا نوٹس جاری  کریں؟ یہ تو سپریم کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی کی گئی ہے، الیکشن کمیشن افسران اور ڈپٹی کمشنرز بھی انتخابات نہ کرائیں تو کون کرائے گا؟جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعتوں سے ریٹرننگ افسران لیے تھے؟  ملک بھر میں کتنے ڈی آر اوز اور آر اوز تھے؟ وکیل الیکشن کمیشن نے بتایاکہ ڈی آر اوز 148 اور ریٹرننگ افسران 859 ہیں۔

 چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگرعدلیہ کے افسران انتخابات نہ کرائیں، الیکشن کمیشن اور ایگزیکٹو بھی نہ کرائے تو کون کرائے؟ اس سے تو بادی النظر میں انتخابات ملتوی کرانا ہی مقصد نظر آتا ہے، الیکشن کرانا کس کی آئینی ذمے داری ہے؟ جج صاحب کو کہہ دیں وہ خود الیکشن کرالیں، نجانے عدلیہ کیسے حکم جاری کر رہی ہے، کیا یہ آرڈر دینے والے جج مس کنڈکٹ کے مرتکب نہیں ہوئے؟جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا عمیرنیازی نے ہائیکورٹ میں چیلنج کرنے سے پہلے الیکشن کمیشن کو درخواست دی؟ وکیل الیکشن کمیشن نے بتایاکہ پی ٹی آئی کے درخواست گزار کا کہنا تھا کہ ایگزیکٹو پر انتخابات کے حوالے سے اعتماد نہیں، نگران حکومت کے آتے ہی تمام افسران تبدیل کیے گئے تھے، عمیرنیازی کہتے ہیں کہ وہ پی ٹی آئی کے ایڈیشنل جنرل سیکرٹری ہیں۔اس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ کل تو وہ کہیں گے ہمیں عدلیہ پر اعتماد نہیں، ان کے کہنے سے کیا ہوتا ہے۔

جسٹس سردار طارق مسعود نے استفسار کیا کہ نوٹیفکیشن معطل ہوا تو آپ نے تربیت کیوں روکی ہے؟ 7دن کی تربیت ہوتی ہے ایک دن کی تربیت ہوچکی ہے، سپریم کورٹ نے انتخابات ڈی ریل کرنے سے روکا تھا، کون الیکشن کے راستے میں رکاوٹ ہے؟ چیف جسٹس  نے پوچھاکہ عدلیہ سے ایسے احکامات آنا حیران کن ہے، الیکشن پروگرام کب جاری ہونا تھا؟ وکیل نے جواب دیا کہ آج الیکشن شیڈول جاری ہونا تھا۔اٹارنی جنرل نے استفسار پر بتایاکہ معاونت کیلئے نوٹس تھا لیکن ایڈیشنل اٹارنی جنرل پیش ہوئے تھے، مجھے اس کیس کے بارے معلوم نہیں تھا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ لاہور ہائیکورٹ کے جج نے مس کنڈکٹ کیا ہے، سپریم کورٹ کی حکم عدولی مس کنڈکٹ ہے، درخواست آئی لگ بھی گئی، حکم امتناع دینے والا جج ہی لارجر  بینچ کا سربراہ بن گیا۔اگر عام انتخابات 8 فروری کو ہونے ہیں تو الیکشن کمیشن کو آج یا کل تک الیکشن شیڈول جاری کرنا ہوگا اور انتخابی شیڈول 54 دن کا ہوتا ہے۔

انتخابی شیڈول کے مطابق 17 دسمبر پہلا دن اور 8 فروری 54 واں دن بنتا ہے۔اس سے قبل سیکرٹری الیکشن کمیشن بھی سپریم کورٹ پہنچے اور میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل تیار کر لی ہے، کچھ دیر بعداپیل سپریم کورٹ میں دائر کر دیں گے۔ان کا کہنا تھاکہ 8 فروری کو انتخابات سے متعلق ابھی کچھ کہہ نہیں سکتے۔یاد رہے کہ الیکشن کمیشن نے 8 فروری 2024 کو ملک بھر میں عام انتخابات کروانے کا اعلان کر رکھا ہے تاہم چند روز قبل پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے عام انتخابات کے لیے بیوروکریسی کی خدمات لینے کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کیا۔

لاہور ہائیکور ٹ نے گزشتہ روز پاکستان تحریک انصاف کی درخواست پر الیکشن کمیشن کا انتخابات کے لیے بیوروکریسی کی خدمات لینے کا نوٹیفکیشن معطل کر دیا تھا جبکہ آج لاہور ہائیکورٹ نے اس معاملے پر چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ بھی تشکیل دے دیا ہے جو 18 دسمبر کو کیس کی سماعت کرے گا۔

Back to top button