لاہور ہائیکورٹ کی آفیشل سیکریٹس ایکٹ سے متعلق تشریح :ملزمان کے حقوق پر بحث
لاہور ہائی کورٹ کی جانب سےآفیشل سیکریٹس ایکٹ کے اطلاق کی دوبارہ تشریح کرتےہوئے کہا گیا ہے کہ فوجی حکام کی جانب سے ایکٹ کےتحت گرفتار ملزمان کو اب مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
مطابق عدالت عالیہ کی جانب سےیہ تشریح 19 ستمبر 2023 کو آفیشل سیکریٹس ایکٹ کےتحت حراست میں لیے گئے ریٹائرڈ فوجی افسرحسن بن آفتاب کی اہلیہ صائمہ حسن کی جانب سے دائر مقدمے میں گئی ہے۔
انعام الرحیم ایڈووکیٹ کےتوسط سےدائر درخواست میں درخواست گزار کا کہنا تھا کہ ان کے شوہر کو فوج میں 27 سال خدمات انجام دینےکےبعد آفیشل سیکریٹس ایکٹ اور پاکستان آرمی ایکٹ کےتحت حراست میں لیا گیا اور انہیں اہل خانہ یا وکیل تک رسائی کی اجازت نہیں دی گئی۔
درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ گرفتاری اور ٹرائل کےلیے مناسب طریقہ کار اختیار کرنے اور ملزم کو مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنے کا پابند کرتا ہے، تاہم حسن بن آفتاب کےمعاملے میں اس رسمی قانونی کارروائی کو نظر انداز کرتےہوئے براہ راست ملٹری ٹرائل شروع کردیا گیا ہے۔
جسٹس صداقت علی خان نے کہا کہ آفیشل سیکریٹس ایکٹ کے تحت اصل میں مشتبہ افراد کو مجسٹریٹ کےسامنے پیش کرنا ضروری تھا لیکن بعد میں پاکستان آرمی ایکٹ میں کی جانے والی ترامیم نےاس شرط کو متروک کر دیا ہے۔
26 نومبر احتجاج : بشریٰ بی بی کی عبوری ضمانت میں 13 جنوری تک توسیع
انہوں نےاس بات پر زور دیا کہ موجودہ قانونی فریم ورک آفیشل سیکریٹس ایکٹ کی خلاف ورزیوں کو فوجی عدالتوں کے لیے قابل سماعت بناتا ہے،جو مکمل طور پر پاکستان آرمی ایکٹ کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔
جج نےاس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ یہ تبدیلی آفیشل سیکریٹس ایکٹ کے پاکستان آرمی کے ساتھ منسلک ہونے کے بعد متعارف کرائے گئےطریقوں سے مطابقت رکھتی ہے، جس سے قومی سلامتی کی مبینہ خلاف ورزیوں کے لیے فوجی ٹرائلز کو آسان بنایا گیا ہے۔
انعام الرحیم ایڈووکیٹ نے عدالت کی تشریح کو چیلنج کرتے ہوئےکہا کہ ملزمان کو مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنا من مانی حراست کےخلاف بنیادی تحفظ ہے۔
انہوں نے سابق وزیراعظم عمران خان کے ٹرائل سمیت ماضی کے مقدمات کاحوالہ دیا جہاں اسی طرح کے حالات میں مناسب عدالتی طریقہ کار پر عمل کیا گیا۔
عمران خان کےخلاف انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت میں مقدمہ چلایا گیا تھا،جس کی سربراہی آفیشل سیکریٹس ایکٹ کے تحت ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نے کی تھی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیر اعظم کی سزا کالعدم قرار دے دی ہے۔
وکیل نےسپریم کورٹ میں زیر التوا درخواست کی جانب بھی اشارہ کیا جس میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کےدور میں فوجی عدالتوں میں 29 شہریوں کی سزاؤں کو چیلنج کیا گیا تھا۔
ان افراد کو مبینہ طور پر ان کے اہل خانہ کو اطلاع دیے بغیر حراست میں لیا گیا تھا اور مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیے بغیر ان پرمقدمہ چلایا گیا تھا، جس سے شفافیت اور مناسب طریقہ کار کےبارے میں خدشات پیدا ہوئے تھے۔
اس کیس نےپاکستان مسلم لیگ (ن) کی زیر قیادت پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی سابقہ حکومت کی جانب سے آفیشل سیکریٹس ایکٹ میں کی گئی ترامیم پر بحث کو جنم دیا ہے۔ ان ترامیم نے آفیشل سیکریٹس ایکٹ کے دائرہ کار کو نمایاں طور پر وسیع کیا، اسے مواصلات کے جدید طریقوں سے ہم آہنگ کیا اور فوجی دستاویزات اور تنصیبات کی تعریف کو وسعت دی۔
کوئی بھی تحریری، الیکٹرانک، ڈیجیٹل، یا مبہم ریکارڈز شامل ہیں جو فوجی خریداریوں اور صلاحیتوں سےمتعلق ہیں۔
فوجی تنصیبات اورمتعلقہ سرگرمیوں کی نئی تعریف کی گئی ہے، وسیع تر علاقوں کو ایکٹ کے دائرہ اختیار میں لایا گیا ہے۔
ناقدین کا کہنا ہےکہ یہ تبدیلیاں انٹیلی جنس ایجنسیوں کو ضرورت سے زیادہ اختیارات دیتی ہیں، جس سےغلط استعمال اور احتساب کے فقدان کا خدشہ پیدا ہوتا ہے۔
ایڈووکیٹ انعام الرحیم نےدعویٰ کیا کہ ایسے معاملات میں شفافیت اور قانونی نگرانی کا فقدان بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا موجب ہےاور عدالتی عمل پر عوام کے اعتماد کو مجروح کرتا ہے۔
فوجی تنصیبات اورمتعلقہ سرگرمیوں کی ازسرنو وضاحت کی گئی ہےجس سے وسیع تر علاقوں کو ایکٹ کے دائرہ اختیار میں لایا گیا ہے۔
ناقدین کا کہنا ہےکہ ان تبدیلیوں سےانٹیلی جنس ایجنسیوں کو حد سے زیادہ اختیارات مل جاتےہیں جس سے غلط استعمال اور احتساب کے فقدان کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔
ایڈوکیٹ انعام الرحیم نےدعویٰ کیا کہ اس طرح کے معاملات میں شفافیت اورقانونی نگرانی کا فقدان بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہےاورعدالتی عمل میں عوام کےاعتماد کو کمزور کرتا ہے۔