عمران اب اقتدار میں آئے تو سڑکوں پر پھانسیاں ہوں گی

 

 

سینئر صحافی اور کالم نگار جاوید چوہدری کہتے ہیں کہ اگر عمران خان موجودہ حالات میں دوبارہ اقتدار میں آگئے تو  ملک نہیں چلاسکیں گے‘ یہ پچھلی مرتبہ ساڑھے تین سال گزار گئے تھے لیکن یہ اس مرتبہ چھ ماہ بھی نہیں نکال سکیں گے۔ کیوں کہ اس بار ناتجربہ کاری اور نالائقی کے ساتھ ساتھ عمران خان کے سر پر انتقام کا بوجھ بھی ہو گا اور یہ عملاً سڑکوں پر پھانسیاں دینے لگیں گے  . اپنے کالم میں جاوید چوہدری کہتے ہیں کہ  آج کل کا  سیاسی سرکس ہی دیکھ لیں‘چند دن پہلے لاہور ہائی کورٹ میں کیا ہوتا رہا ؟ جج بیٹھ کر عمران خان کا انتظار کر رہے ہیں اور ٹویٹر پر ’’لاہور ہائی کورٹ پہنچیں‘‘ کا ٹرینڈ چل رہا تھا اور جب تک پی ٹی آئی کے کارکنوں نے لاہورہائی کورٹ کو مکمل طور پر یرغمال نہیں بنا لیا عمران خان اس وقت تک احاطہ عدالت تک نہیں پہنچے‘ عدالت نے سمجھ داری کا ثبوت دیا۔

اس نے عمران خان کی ضمانت لے لی ورنہ دوسری صورت میں لاہور ہائی کورٹ کے خلاف ٹرینڈ بھی تیار تھے اور ججوںکے لیے ضمانت مسترد ہونے کے بعد عدالت سے نکلنا مشکل ہو جانا تھا‘ ایک طرف یہ ڈرامہ چل رہا تھا اور دوسری طرف صدر نے 9 اپریل کا نوٹی فکیشن جاری کر دیا‘ اس نوٹی فکیشن نے ایک نیا بحران پیدا کر دیا۔

حکومت کا خیال ہے صدر سپریم کورٹ پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ یہ آگے بڑھے‘ سوموٹو نوٹس لے اور الیکشن کمیشن اور حکومت کو الیکشن کرانے پر مجبور کرے‘ رجسٹرار سپریم کورٹ نے ایوان صدر اور الیکشن کمیشن سے خطوط کی کاپیاں بھی منگوا لی ہیں۔

یہ توپ بھی کسی وقت چل جائے گی اور یوں آئینی اور سیاسی بحران میں اضافہ ہو جائے گا اور پاکستان تحریک انصاف نے گرفتاریاں دینا بھی شروع کر دی ہیں‘ اُدھر حکومت سے معیشت نہیں چل رہی کیوں نہیں چل رہی؟کیوں کہ بیوروکریسی دس ماہ سے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر سیاسی سرکس دیکھ رہی ہے‘ سوال یہ ہے کیا اس صورت حال میں ملک چل سکے گا؟۔جاوید چوہدری کہتے ہیں کہ عمران خان کی صرف ایک خواہش ہے‘ یہ چاہتے ہیں اسٹیبلشمنٹ یا عدلیہ آگے بڑھ کر انھیںاقتدار میں واپس لے آئے‘ اب اگر فوج اور عدلیہ عمران خان کی خواہش پر سیاسی گند کا حصہ بن جاتی ہے۔

یہ فریقین کو زبردستی بٹھا کر الیکشن کی تاریخ دے دیتی ہے تو اگلے الیکشن بھی متنازعہ  ہو جائیں گے اور جیتنے والوں کا بوجھ دوبارہ اسٹیبلشمنٹ پر آ جائے گا اور یہ نئی حکومت ان سے توقع کرے گی آپ اب 2018 سے 2022 کی طرح ہماری حکومت بھی چلائیں‘ دوسری طرف ہارنے والے سڑکوں پر ہوں گے اور اگلے پانچ سال بھی سیاسی سرکس میں ضائع ہو جائیں گے۔میں آج یہ دعویٰ کر سکتا ہوں اگر عمران خان ان حالات میں دوبارہ اقتدار میں آگئے تو یہ ملک نہیں چلاسکیں گے‘ یہ پچھلی مرتبہ ساڑھے تین سال گزار گئے تھے لیکن یہ اس مرتبہ چھ ماہ بھی نہیں نکال سکیں گے۔

کیوں؟ کیوں کہ اس بار ناتجربہ کاری اور نالائقی کے ساتھ ساتھ ان کے سر پر انتقام کا بوجھ بھی ہو گا اور یہ عملاً سڑکوں پر پھانسیاں دینے لگیں گے جس سے ملک کا رہا سہا بھرم بھی ختم ہو جائے گا اور دوسری صورت میں اگر الیکشن نہیں ہوتے اور یہ حکومت اسی طرح جاری رہتی ہے تو بھی انجام مختلف نہیں ہو گا‘ ملک الیکشن تک پہنچتے پہنچتے اپنی ساری ہمت ہار دے گا چناں چہ پھر حل کیا ہے؟ اس صورت حال کا حل سیدھا اور سادا ہے۔

عمران خان‘ میاں شہباز شریف‘ آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمن اکٹھے بیٹھیں اور کسی متفقہ لائحہ عمل پر راضی ہو جائیں‘ یہ الیکشن‘ الیکشن کمیشن‘ معیشت اور احتساب چار چیزوں پر اتفاق کر لیں‘ یہ لوگ فیصلہ کر لیں ملک میں الیکشن صرف پانچ سال بعد ہوں گے‘ الیکشن کمیشن آزاد اور متحرک ہو گا اور یہ کسی ادارے اور سیاسی جماعت کے دباؤ میں فیصلے نہیں کرے گا‘ ملکی معیشت کے چند بڑے اصول  بھی طے کر دیے جائیں۔ ہم نے آئی ایم ایف کے چنگل سے کب آزاد ہونا ہے‘ ٹیکس پالیسی کیا ہو گی‘ امپورٹس کی اجازت کہاں تک دی جائے گی اور ہم کیا کیا ایکسپورٹ کریں گے اور یہ فیصلہ بھی کر لیا جائے حکومت کسی سیاسی مخالف کے خلاف سیاسی مقدمہ نہیں بنائے گی۔

جاوید چوہدری کا  کہنا ہے کہ یہ سیاسی  لوگ یہ فیصلے کریں اور ملک میں اس کے بعد الیکشن کرا دیے جائیں اور جس کی اکثریت ہو اسے حکومت بنانے اور چلانے کا موقع دے دیا جائے‘ عمران خان کام یاب ہو جائیں تو انھیں روکنے کی کوشش نہ کی جائے اور اگر پیپلز پارٹی‘ ن لیگ یا جے یو آئی اکثریت حاصل کر لے تویہ خواہ مولانا فضل الرحمن کو وزیراعظم بنا دیں‘ کوئی ان کا راستہ نہ روکے۔

ہمیں من حیث القوم یہ فیصلہ بھی کرناہو گا ہم اگر حکومتوں کو کام نہیں کرنے دیں گے، یہ اگر پانچ سال اپنی دھوتی بچاتی رہیں گی یا بیوروکریسی کو اگر یہ اعتماد نہیں ہوگا ہم کل ہیں یا نہیں ہیں تو پھریہ ملک کیسے چلے گا؟ دوسرا ہم جب عدلیہ سے الیکشن‘ فوج سے پارلیمنٹ اور پولیس سے سیکیورٹی کا کام لیں گے تو بھی ملک کیسے چلے گا؟ فوج کا کام سرحدوں کی حفاظت ہے۔ان کا کام حکومتیں بنانا‘ چلانا اور توڑنا نہیں‘ آئی ایس آئی کا کام ملک کی سیکیورٹی ہے‘ یہ اگر حکومت بنائے‘ چلائے اور گرائے گی تو سیکیورٹی کا کام کون کرے گا؟ پولیس کا کام جرائم روکنا اور مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچانا ہے۔

یہ اگر سارا دن جلوس کنٹرول کرے گی اور وی وی آئی پی موومنٹ پر لگی رہے گی تو پولیس کا کام کون کرے گا اور اسی طرح اگر ہماری سڑکیں محفوظ نہیں ہوں گی‘ کوئی اٹھے گا اور سڑکیں بند کر کے بیٹھ جائے گا تو پھر لوگ دفتر‘ فیکٹری‘ مل‘ اسکول‘ اسپتال اور مارکیٹ کیسے جائیں گے اور اگر لوگ کام پر ہی نہیں جا سکیں گے تو پھر ملک کیسے چلے گا؟ اور بے روزگاری اور غربت کیسے ختم ہو گی چناں چہ عقل کو ہاتھ ماریں‘ خدا کو یاد کریں اور ملک کی فکر کریں۔

یہ ملک اس سرکس میں زیادہ دیر نہیں چل سکے گا‘ آپ لوگ سیاست دان ہیں اور سیاست دانوں کا کام ملک چلانا ہوتا ہے ملک برباد کرنا نہیں ہوتا‘ عمران خان بے شک پوری دنیا کی جیلیں بھر دیں یا حکومت خواہ پوری پی ٹی آئی کو گرفتار کر کے جیلوں میں ڈال دے لیکن اس سے مسئلہ حل نہیں ہو گا‘ بحران ختم نہیں ہو گا۔

آخر میں جاوید چوہدری کہتے ہیں کہ بحران اور مسائل کا صرف ایک ہی حل ہے اور وہ ہے اپوزیشن اور حکومت کے درمیان ڈائیلاگ‘ آپ آج بیٹھ جائیںگے تو سب بچ جائیں گے۔نہیں بیٹھیں گے تو کل آپ کو ملک کے ملبے پر بیٹھنا ہوگا یا پھر ٹینک کے سامنے لیٹنا ہوگا‘ آپ بہرحال کسی نہ کسی دن ایک دوسرے کوقبول کرنے اور ہاتھ ملانے پر مجبور ہو جائیں گے لہٰذا بہتر یہی ہے آپ آج بیٹھ جائیں ملک اور آپ دونوں بچ جائیں گے ورنہ ملک بھی جائے گا اور آپ لوگ بھی۔

فوج کی عمران خان سے جان کیسے چھوٹے گی؟

Back to top button