سرداری نظام کے خلاف لڑتے ہوئے گزر جانے والے عبدالحئی بلوچ
24 فروری 2022 کو ایک ٹریفک حادثے میں گزر جانے والے بلوچ قوم پرست رہنما ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ ساری زندگی استحصال پر مبنی سرداری نظام کے خلاف برسر پیکار رہے۔ اسی لیے بلوچستان کی سیاست میں جب کبھی کسی سردار یا نواب کا نام لیا جاتا ہے، تو متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے عبدالحئی بلوچ کا ذکر بھی ضرور آتا ہے۔
بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے بانی عبدلحئی بلوچ کی سادگی کا یہ عالم تھا کہ وہ اکثر کراچی اور کوئٹہ کی سڑکوں پر پیدل پھرتے نظر آتے۔ انہوں نے اپنی زندگی اسی طرح پاکستان کے مظلوم طبقوں کے حقوق اور حقیقی جمہوریت کی بحالی کے لیے جدوجہد کرتے گزری۔
یکم فروری 1946 کو بلوچستان کے ضلع کچھی میں پیدا ہونے والے عبدالحئی بلوچ نے ابتدائی تعلیم کوئٹہ اور ایم بی بی ایس کی ڈگری کراچی کے ڈاؤ میڈیکل کالج سے حاصل کی۔ البتہ طب کا پیشہ اختیار کرنے کے بجائے انہوں نے عوامی سیاست کو ترجیح دی۔ اُن کا شمار بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن یا بی ایس او کے بانیوں میں ہوتا تھا۔
عبدالحئی طلبہ سیاست کے بعد ترقی پسند رجحانات کی حامل نیشنل عوامی پارٹی یا نیپ میں شامل ہوئے اور پختون اور بلوچ سیاسی رہنماؤں ولی خان، میر غوث بخش بزنجو، سردار عطا الله مینگل اور میر گل خان نصیر کے سیاسی ہمسفر بنے۔ انہوں نے جنرل ایوب خان کی آمریت کے خلاف بھرپور جدوجہد کی جس کی پاداش میں انہیں چھ ماہ جیل میں رکھا گیا۔
1970 کے انتخابات میں انہوں نے نیشنل عوامی پارٹی کے پلیٹ فارم پر بلوچستان کے علاقے قلات کی قومی اسمبلی کی نشست سے الیکشن لڑا اور خطے کے سابق حکمران خاندان خان آف قلات کے قریبی عزیز پرنس محی الدین کو شکست دی جو 11 سال سے وفاقی وزیر تھے۔
تحریک عدم اعتماد اپوزیشن لا رہی ہے یا کہ اسٹیبلشمنٹ؟
عبدالحئی بلوچ تب کی قومی اسمبلی کے ان چند ارکان میں سے تھے جنہوں نے 1973 کے آئین پر دستخط کرنے سے انکار کیا۔ اُن کو یہ اعتراض تھا کہ اس میں پاکستان میں آباد قوموں کی تاریخ، ثقافت، زبان اور شناخت برقرار رکھنے کی ضمانت نہیں دی گئی۔
ذوالفقار علی بھٹو سے اختلافات کے باعث انہیں ایک بار پھر گرفتار کیا گیا لیکن یہ گرفتاری 18 ماہ کے طویل عرصے پر محیط رہی اور انہیں جیل میں صعوبتوں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ نیپ پر پاپندی اور اس میں ٹوٹ پھوٹ کے بعد عبدالحئی بلوچ نے سابق وزیراعلی بلوچستان عبدالمالک بلوچ اور دیگر بی ایس او کے سابق ساتھیوں کے ہمراہ 1987
میں تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل نوجوانوں کے لیے بلوچستان نیشنل یوتھ موومنٹ نامی تنظیم تشکیل دی۔ بعدازاں یہ تنظیم سیاسی جماعت بلوچستان نیشنل موومنٹ میں تبدیل ہو گئی اور عبدالحئی بلوچ اس کے پہلے چیئرمین منتخب ہوئے۔
اس جماعت نے سرداری نظام کی مخالفت کے باوجود 1988 کے انتخابات میں نواب اکبر بگٹی اور سردار عطااللہ مینگل کے تشکیل کردہ اتحاد بلوچستان نیشنل الائنس کے پلیٹ فارم تلے انتخابات میں حصہ لیا اور کچھ نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔
بی این ایم کی تشکیل کا بنیادی مقصد بلوچستان کی سیاست میں سرداروں کے اثرونفوذ کو ختم کرنا تھا اور یہی وجہ تھی کہ یہ جماعت بلوچستان کے مکران ریجن میں کافی فعال رہی جہاں روایتی طور پر سرداری نظام نہ ہونے کے برابر تھا۔ بلوچستان کی سیاست میں اینٹی سردار سیاست کو متعارف کرانے والے ہی عبدالحئی بلوچ تھے۔ لہٰذا بلوچستان میں وہ واحد شخص تھے جو نوابوں اور سرداروں کو کھٹکتے تھے۔
جب 2003 میں میر حاصل بزنجو کی بلوچستان نیشنل ڈیمو کریٹک پارٹی کے ساتھ انضمام کے بعد نیشنل پارٹی کے نام سے ایک نئی جماعت تشکیل پائی تو عبدالحئی بلوچ کو مرکزی صدر منتخب کیا گیا اور اسی پارٹی کے ٹکٹ پر وہ سینیٹر منتخب ہوئے۔ البتہ 2013 میں نیشنل پارٹی کی قیادت سے اختلاف پر عبدالحئی بلوچ ناراض ہوئے اور انہوں نے جولائی 2017 میں بی این ایم کو دوبارہ فعال کرنے کا اعلان کیا۔
البتہ ایک سال کے کم ہی عرصے میں نیشنل ڈیمو کریٹک پارٹی کے نام سے نئی جماعت تشکیل دے دی۔عبدالحئی بلوچ پاکستان کے واحد سیاستدان تھے جو بیک وقت بلوچستان میں سیاسی جلسوں سے چھ زبانوں اردو، بلوچی، پشتو، براہوی، سندھی اور سرائیکی میں خطاب کرتے تھے۔
وہ اپنے پرجوش خطاب سے جلسوں کو گرما دینے پر قدرت رکھتے تھے۔ ان کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ وہ لوگوں کے مسائل حل کرنے کے لیے غریب سائلین اور متاثرین کے ہمراہ طویل فاصلے تک بھی پیدل، سائیکل اور موٹر سائیکل پر بھی چل پڑتے تھے اور ایسے ہی ایک سفر کے دوران وہ 24 فروری 2020 کو ایک ٹریفک حادثے میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔