توشہ خانہ لوٹنے والے کپتان نے سعودی شہزادے کو کیسے ناراض کیا؟

سابق وزیراعظم عمران خان غیر ملکی تحائف کے اتنے رسیا تھے کہ اپنے دور اقتدار میں بطور وزیراعظم انہیں جو بھی تحفہ وصول ہوتا تھا موصوف توشہ خانہ میں جمع کروانے کی بجائے اپنے گھر لے جاتے تھے اور واجبی قیمت ادا کر کے اسکے مالک بن جاتے تھے، ان غیر ملکی قیمتی تحائف میں سے کئی ایسے تھے جن کو انہوں نے نہایت سستے داموں خریدا اور پھر اپنی اہلیہ بشریٰ بی بی کی فرنٹ پرسن کہلانے والی فرح خان کے ذریعے فروخت کر دیا۔ یعنی تحفے خریدنے کا بنیادی مقصد انہیں بیچ کر منافع کمانا ہوتا تھا چنانچہ بطور وزیراعظم اسے خان صاحب کا ایک سائیڈ بزنس بھی کہا جا سکتا ہے۔ ان کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ بطور وزیراعظم عمران صرف دو لاکھ روپے تنخواہ وصول کرتے تھے جس میں اتنا بڑا گھر چلانا مشکل ہوتا ہے لہٰذا جائز ذرائع سے آمدنی حاصل کرنا کوئی بُری بات نہیں، کپتان کی جانب سے سستے داموں تحائف خرید کر مہنگے داموں فروخت کرنے کی تصدیق تحریک انصاف کے ترجمان فواد چوہدری بھی کر چکے ہیں۔
تاہم ان کی اس عادت کا خمیازہ پاکستان کو سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہونے کی صورت میں بھگتنا پڑا تھا، بتایا جاتا ہے کہ سعودی شہزادہ محمد بن سلمان نے خان صاحب کو ایک نہایت قیمتی گھڑی بطور تحفہ دی تھی جسے بعد ازاں فرح خان کے ذریعے دبئی میں فروخت کر دیا گیا، سعودی شہزادے نے ڈائمنڈ کی یہ سپیشل ایڈیشن گھڑی ایک غئر ملکی کمپنی سے آرڈر پر تیار کروائی تھی کیونکہ عموماً اتنی قیمتی گھڑی کا گاہک مشکل سے ہی ملتا ہے۔ سعودی شہزادے نے ایسی چار گھڑیاں بنوائی تھیں جن میں سے ایک عمران خان کو تحفہ کر دی جب یہ گھڑی وزیراعظم کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی فرنٹ پرسن فرح خان کے ذریعے دبئی بکنے گئی تو جیولر کو گھڑی دیکھ کر سپشیل ایڈیشن کی پہچان ہوگئی، یوں یہ معاملہ محمد بن سلمان کے نوٹس میں بھی آ گیا جنہوں نے اس حرکت کا سخت بُرا منایا اور عمران کو مزید شرمندہ کرنے کے لئے نہ صرف گھڑی خرید لی بلکہ عمران تک بھی یہ بات پہنچا دی کہ اس کا خریدار کون ہے؟ اس کے بعد عمران خان اور سعودی شہزادے کے تعلقات کافی کشیدہ ہوگئے تھے جس کا خمیازہ پاکستان کو بھگتنا پڑا تھا۔
معروف صحافی عمر چیمہ کی ایک رپورٹ کے مطابق سابق وزیراعظم عمران خان کو اپنے ساڑھے تین سالہ مدت کے دوران عالمی رہنمائوں کی طرف سے 14 کروڑ روپے مالیت کے 58 تحفے ملے اور انہوں نے یہ تمام تحفے واجبی رقم ادا کر کے یا کوئی ادائیگی کیے بغیر ہی اپنے پاس رکھ لیے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے بھی تصدیق کی کہ ان تحائف میں سے مہنگے ترین تحفوں کو دبئی میں فروخت کر دیا جاتا تھا، سرکاری معلومات کے مطابق عمران نے کروڑوں مالیت کے 15 مہنگے تحائف اپنی ملکیت بنانے کے لیے رقم ادا کی اور پھر ان پر 10 کروڑ روپے سے زائد کا منافع کمایا۔
انہوں نے 14 کروڑ روپے مالیت کے تحفوں کے عوض صرف 3 کروڑ 80 لاکھ روپے ادا کیے جبکہ دیگر تحائف کوئی رقم ادا کیے بغیر ہی رکھ لیے۔ اس لیے مریم نواز نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ دو لاکھ روپے تنخواہ لینے والے وزیراعظم کے پاس کروڑوں کے تحفے خریدنے کے لیے رقم کہاں سے آئی، اور وہ یہ سائڈ بزنس کس قانون کے تحت کرتے رہے، بتایا جاتا ہے کہ خان صاحب کو سب سے مہنگا تحفہ تب ملا جب اگست 2018 میں انہوں نے عہدے کا حلف اٹھایا تھا۔ ان تحائف میں ساڑھے 8 کروڑ روپے کی ایک ڈائمنڈ گراف واچ تھی جو انہوں نے صرف 20 فیصد رقم ادا کر کے خریدی۔ اسکے علاوہ 56 لاکھ روپے سے زائد مالیت کے کف لنکس، 15 لاکھ روپے کے قلم اور 87 لاکھ روپے سے زائد مالیت کی انگوٹھی بھی ان تحائف میں شامل تھی۔
ان قیمتوں کا تعین سرکاری ایویلیوئشن کمیٹی نے کیا تھا جو عمران نے خود ہی تشکیل دی تھی، یہ تمام تحائف، جن کی مالیت دس کروڑ روپے تھی، عمران نے ستمبر 2018 میں متعین کردہ اصل رقم کا صرف 20 فیصد یعنی 2 کروڑ روپے ادا کر کے خریدا لیے، وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ ان تمام تحائف کو بعد میں دبئی میں 155 ملین (15 کروڑ پچاس لاکھ) روپے میں فروخت کر دیا گیا۔
یوں عمران خان نے یہ تحائف بیج کر ساڑھے دس کروڑ روپے کا منافع کمایا، لیکن یہ دیکھنا باقی ہے کہ ان تحائف کی رقم کس نے ادا کی تھی اور کیا عمران خان نے کیپیٹل گین ٹیکس ادا کیا تھا یا نہیں، قواعد و ضوابط کے مطابق دنیا کے کسی لیڈر کی طرف سے سرکاری عہدیدار کو ملنے والا تحفہ توشہ خانے میں جمع کر دیا جاتا ہے۔ اگر کوئی عہدیدار یہ تحفہ اپنے پاس رکھنا چاہے تو وہ ایک مخصوص رقم ادا کر کے اپنے پاس رکھ سکتا ہے، جو ستمبر 2018 میں عمران خان کے وقت میں 20 فیصد تھی، اس طرح انہوں نے یہ تحائف اپنے پاس رکھ لیے۔
بعد ازاں ان قواعد میں دسمبر 2018 میں تبدیلی کی گئی اورتحائف خریدنے کے لیے قیمت بڑھانے کر 50؍ فیصد کر دی گئی جس کی ادائیگی پر ہی تحائف اپنے پاس رکھے جا سکتے ہیں، قانون کے مطابق جو تحائف اپنے پاس نہ رکھنے ہوں انہیں توشہ خانے میں جمع کر دیا جاتا ہے یا پھر ان کی نیلامی ہوتی ہے اور اس سے حاصل ہونے والی رقم سرکاری خزانے میں جمع ہوتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عمران نے سابق صدر آصف زرداری اور سابق وزیراعظم نواز شریف اور یوسف رضا گیلانی کیخلاف یہ کیس بنوایا تھا کہ انہوں نے توشہ خانے سے مہنگی کاریں سستے داموں خرید لی تھیں حالانکہ گاڑی ایک ایسا آئیٹم ہے جسے خریدنے کی اجازت نہیں اور یہ ایوان صدر یا وزیراعظم ہاؤس کے زیر استعمال رہتی ہے۔ لیکن اب مسلم لیگ نون کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال نے دعوی کیا ہے کہ عمران خان بطور وزیراعظم تحفہ ملنے والی کروڑوں روپے کی ایک جیپ بھی اپنے گھر لے گے۔
عمران توشہ خانہ کے سستے تحائف مہنگے داموں بیچتے رہے
دیگر تحائف جو عمران خان نے اپنے پاس رکھ لیے ان میں رولیکس واچ، کف لنکس، ایک انگوٹھی اور ایک قیمتی جیولری سیٹ شامل ہیں جس میں نیکلیس، بریسلیٹ اور کانوں کے جھمکے تھے۔ ان کی مالیت دو کروڑ 35؍ لاکھ روپے بنتی تھی جنہیں ایک کروڑ 15؍ لاکھ روپے ادائیگی کر کے خریدا گیا کیونکہ تب اصل قیمت کا 50 فیصد ادا کرنا ہوتا تھا۔ دیگر تحائف میں 38؍ لاکھ روپے کی رولیکس گھڑی ہے جو انہوں نے اکتوبر 2018ء میں اپنے پاس رکھ لی اور صرف سات لاکھ 54 ہزار روپے ادا کیے۔
عمران نے 15؍ لاکھ روپے کی ایک اور رولیکس واچ صرف 2؍ لاکھ 94 ہزار روپے ادا کرکے اپنے پاس رکھ لی۔ دیگر تحائف بھی جو عمران کی ملکیت میں گے ان میں قیمتی ترین رولیکس گھڑیاں، آئی فون اور دیگر اشیا شامل تھیں جن کی مالیت 17؍ لاکھ 30؍ ہزار روپے تھی۔ یہ تمام اشیا صرف تین لاکھ 38؍ ہزار روپے ادا کرکے اپنے پاس رکھ لی گئیں۔