مشہور شاعر کا عوام دشمن حکومت سے ایوارڈ لینے سے انکار
سرائیکی زبان کے معروف شاعر اور ادیب ڈاکٹر اشو لال فقیر نے پاکستان لیٹرز آف اکیڈمی کی جانب سے ملنے والا 10 لاکھ روپے کا کمال فن ایوارڈ لینے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ریاست کی عوام دشمن پالیسیوں کے باعث یہ ایوارڈ نہیں لینا چاہتے خصوصا جب ایک فاشسٹ دور حکومت میں قوم کے بچے لاپتہ ہو رہے ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت عوام دشمن ہے، لہذا میں اس سے کیسے کوئی ایوارڈ لے سکتا ہوں؟ انہوں نے کہا کہ ایسے اایوارڈ زیادہ تر سیاسی بنیادوں پر دیے جاتے ہیں، ان کی اہمیت فوٹو سیشن سے زیادہ نہیں ہوتی اور وہ ویسے بھی کسی ایسے صدر سے ایوارڈ لینا نہیں چاہتے جو ان کا نام تک نہ جانتے ہوں۔
اشو لال نے اپنی ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں لکھا کہ ان کا انکار ایوارڈ لینے سے زیادہ اہم ہے اور ان کی 40 سالہ ادبی سرگرمیاں ہی انکا انعام ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مجھے ایوارڈ نہ دیں بلکہ میرے سندھ دریا، سندھو کو بچا لیں۔ یہ سندھ دریا میری ثقافت، روایات کا امین اور روزگار کا ذریعہ ہے۔ اس کی تباہی ایک پوری تاریخ، قوم، علاقے کی تباہی ہے۔‘ سرائیکی زبان کے مشہور زمانہ ادیب اور شاعر ڈاکٹر اشو لال فقیر کا اصل نام محمد اشرف ہے جنھوں نے پاکستان اکادمی ادبیات کی جانب سے ادب اور شاعری پر ملک کا اعلیٰ ترین ایوارڈ ’کمالِ فن‘ اور 10 لاکھ روپے نقد رقم احتجاجاً وصول کرنے سے انکار کیا ہے۔ یہ ایوارڈ ڈاکٹر اشو لال فقیر کے علاوہ مستنصر حسین تارڑ کو بھی دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔
ڈاکٹر اشو لال فقیر نے یہ ایوارڈ قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اُنھوں نے ساری زندگی اپنے لوگوں کے جذبات کا اظہار شاعری کے ذریعے کیا ہے۔ ’میری شاعری مزاحمتی شاعری ہے۔ جس میں میں نے اپنے ماحول، پرندوں، چرندوں، صحراؤں، پانی، ثقافت، زبان، کلچر کی تباہی کا ذکر کیا ہے۔ اب ریاست سے ایوارڈ لینے کا مطلب ریاست کی عوام دشمن پالیسیوں کو قبول کرنا ہے جو کہ میں نہیں کر سکتا۔‘
ڈاکٹر اشو لال فقیر پنجاب کے ضلع لیہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ سرائیکی شاعری کی چھ کتابوں اور کہانیوں کی ایک کتاب کے مصنف ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ اُن کے والد ایک ریٹائرڈ فوجی تھے اور اُن کا تعلق ایک عام اور متوسط طبقے کے خاندان سے ہے۔ ’گھر میں میری والدہ مجھ اشرف کے نام سے نہیں بلکہ پیار سے اشو لال کے نام سے پکارتی تھیں۔ میرا یہ ہی نام مشہور ہوا تھا اور پھر میں نے خود بھی یہی نام اختیار کر لیا۔‘
ڈاکٹر اشو لال فقیر کا کہنا تھا کہ ضیا کے مارشل لاء دور میں جو کچھ دیگر سیاسی کارکنان، شاعروں، ادیبوں کے ساتھ ہوا تھا، اُن کے ساتھ بھی ہوا۔ ’مجھ پر بھی مقدمہ چلا جس میں مجھے دو سال کے لیے کالج سے نکال دینے کی سزا سنائی گئی۔‘ ان کا کہنا تھا کہ یہ سزا بھی اُن کا جذبہ اور حوصلے پست نہیں کر سکی۔ ’اس دو سال کے عرصے میں، میں نے اپنی ترجیحات کو پرکھا، دیکھا اور سمجھا، اور یہاں سے اپنی مادری زبان میں شاعری کرنے کا فیصلہ کیا۔‘ یہ کوئی پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ ڈاکٹر اشو لال فقیر نے کوئی حکومتی ایوارڈ وصول کرنے سے انکار کیا ہے بلکہ اس سے پہلے بھی وہ پرائڈ آف پنجاب ایوارڈ وصول کرنے سے انکار کر چکے ہیں۔