مستنصر حسین تارڑ کا سرکاری ایوارڈ وصول کرنے سے انکار
معروف ناول نگار اور درجنوں مشہور سفر ناموں کے لکھاری مستنصر حسین تارڑ نے پاکستان اکیڈمی آف لیٹرز سے ’کمال فن‘ ایوارڈ لینے سے معذرت کر لی ہے کیونکہ اسے دو ادیبوں میں تقسیم کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔ کمال فن ایوارڈ کے دوسرے حقدار سرائیکی زبان کے معروف شاعر اور ادیب محمد اشرف المعروف ڈاکٹر اشو لال قرار پائے تھے۔
اشو لال نے پہلے ہی پاکستان اکیڈمی آف لیٹرز سے یہ ایوارڈ لینے سے انکار کردیا تھا کیونکہ عمران خان کے دور حکومت میں ان کے نوجوان لاپتا کیے جا رہے ہیں، اب مستنصر حسین تارڑ نے بھی یہ ایوارڈ وصول کرنے سے معذرت کرلی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک ایوارڈ کو دو حصوں میں تقسیم کرنا میری اور اشو لال دونوں کی توہین ہے۔
مستنصر حسین تارڑ نے اپنے ویڈیو بیان میں اکادمی ادبیات پاکستان کی جانب سے ایوارڈ دیے جانے کے ضوابط اور روایات کو توڑنے کی بنیاد پر ایوارڈ نہ لینے کا اعلان کیا۔ اپنی ویڈیو میں مستنصر حسین تارڑ نے بتایا کہ اس بار اکیڈمی آف لیٹرز نے ایوارڈ دینے کی 20 سالہ روایت کو تبدیل کرتے ہوئے ’کمال فن‘ ایوارڈ کو دو شخصیات میں مشترکہ طور پر تقسیم کرنے کا اعلان کیا، جو کہ مضحکہ خیز بات ہے۔
ناول نگار کے مطابق آج تک یہ ایوارڈ ایک ہی ادبی شخصیت کو دیا جاتا رہا ہے مگر اس بار روایات سے ہٹ کر ایوارڈ کو دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا جو کہ ناقابل قبول بات ہے۔ معروف ادیب کا کہنا تھا کہ انہیں معلوم ہوا کہ کچھ دن قبل اشو لال نے بھی اپنے نظریات کی بنیاد پر یہ ایوارڈ لینے سے انکار کردیا تھا جو کہ ان کا بنیادی حق تھا اور ان کے خیال میں سرائیکی شاعر نے اپنے حساب سے ٹھیک کیا.
مستنصر حسین تارڑ کے مطابق ان کی عمر 83 سال ہوچکی ہے اور انہوں نے 60 سال تک ادب کی ختم کی ہے لہزا وہ نصف ایوارڈ وصول نہیں کر سکتے۔ انہوں نے دلیل دی کہ روایات سے ہٹ کر ’کمال فن‘ ایوارڈ ایک کے بجائے دو شخصیات کو دینا دونوں کے ساتھ ناانصافی ہے۔انہوں نے کہا کے مجھے کمال فن ایوارڈ بڑا نہیں کر سکتا۔ انہوں نے ان لوگوں کا شکریہ ادا کیا، جنہوں نے پاکستان اکیڈمی آف لیٹرز میں انہیں ایوارڈ دینے کے لیے ووٹ دیا۔
یاد رہے کہ اکادمی ادبیات پاکستان کے چیئرمین ڈاکٹر یوسف خشک نے 31 مارچ کو ’کمال فن‘ کے ایوارڈ کا اعلان کیا تھا، جس کے فوری بعد سرائیکی شاعر اشو لال نے ریاست کی عوام دشمن اور فاشسٹ پالیسیوں کے باعث ایوارڈ نہ لینے کا اعلان کیا تھا۔
اشو لال نے کہا تھا کہ عمران خان حکومت میں ان کے نوجوان لاپتا کیے جا رہے ہیں، فاشسٹ حکومت مقامی افراد کے وسائل پر قابض ہے اور ریاست لوگوں کے دماغوں پر ڈاکا ڈالنے میں مصروف ہے، ایسی صورت حال میں وہ اس طرح کے نام نہاد ایوارڈ نہیں لے سکتے اور وہ بھی ایک سرکاری اکیڈمی کی طرف سے۔ جہاں ایک طرف اشو لال نے اصولوں کی بنیاد پر یہ ایوارڈ لینے سے معذرت کی ہے وہیں مستنصر حسین تارڑ نے اسے ایوارڈ کو بانٹے جانے پر وصول کرنے سے انکار کیا ہے۔
مشہور شاعر کا عوام دشمن حکومت سے ایوارڈ لینے سے انکار
خیال رہے کہ پاکستان اکیڈمی آف لیٹرز کی جانب سے ’کمال فن‘ ایوارڈ 1997 سے دیا جا رہا ہے، اب تک یہ ایوارڈ ایک ہی ادیب کو دیا جاتا رہا ہے، تاہم اس بار دو ادیبوں کو دینے کا اعلان کیا گیا تھا۔اس بار ایوارڈ کے لیے نامزد کیے گئے دیگر ادیبوں میں کشور ناہید، اصغر ندیم سید، محمود شام، محمد اظہار الحق، ڈاکٹر انور احمد، ڈاکٹر راؤف پاریکھ، پروین ملک، ڈاکٹر ریاض مجید، حفیظ خان، محمد حمید شاہد، ڈاکٹر اباسین یوسف زئی، ناصر علی سید، ڈاکٹر عبدالرزاق صابر، ڈاکٹر ذوالفقار سیال، تاج جویو، ڈاکٹر ضیا الحسن، ڈاکٹر روبینہ شاہین، ڈاکٹر قاسم نسیم، حارث خالق اور ڈاکٹر واحد بخش بزدار شامل تھے۔ مستنصر حسین تارڑ اس سے قبل حکومت پاکستان کی جانب سے 2016 میں ستارہ امتیاز ایوارڈ بھی لے چکے ہیں۔ وہ ناول نگاری کرنے کے علاوہ ماضی میں کئی ٹی وی پروگراموں کی میزبانی بھی کر چکے ہیں.
Mustansir Hussain Tarar refuses to receive official award | video in Urdu