وزیراعظم کو یورپی یونین کیخلاف ردعمل نہیں دینا چاہیے تھا

وفاقی وزیرخزانہ شوکت ترین کا کہنا ہےکہ وزیراعظم کا حق ہے کہ وہ فیصلہ کریں کہ اپنے ملک اوراس کے وقار کو کس طرح محفوظ کرنا ہے۔تاہم وزیراعظم کو یورپی یونین کے خلاف عوامی طور پر ردعمل نہیں دینا چاہیے تھا .

شوکت ترین کا اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھاکہ وزیر اعظم عمران خان کو اپنی حالیہ تقریر میں یورپی یونین کے خلاف عوامی طور پر ردعمل کا اظہار نہیں کرنا چاہیے تھا ، وزیراعظم نے اپنی تقریر میں یورپی یونین کے سفیروں کو ان کے غیرسفارتی بیان پرتنقید کا نشانہ بنایا تھا جس میں پاکستان سے یوکرین پر روس کے حملے کی مذمت کرنے کو کہا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے سوال کیا تھا کہ کیا آپ میں سے کسی نے بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات منقطع کیے یا اس کے غیر قانونی اقدامات پر اعتراض کیا ہے؟ وزیراعظم نے یورپی یونین کے نمائندوں سے پوچھا، کیا ہم غلام ہیں کہ آپ کی مرضی کے مطابق کام کریں۔اس پریس دفتر خارجہ نے کہا تھا کہ ہم نے اس کا نوٹس لیا ہے اور اس کے بعد سفیروں کے ایک گروپ کے ساتھ ملاقات میں ہم نے اس پر اپنی تشویش کا اظہار کیا کیونکہ یہ وہ طریقہ کار نہیں ہے جس طرح سے سفارت کاری کی جانی چاہیے۔

صحافی کےسوال پر کہ کیا وزیر اعظم کے یورپی یونین ممالک کے اقدام پر تبصرے سے پاکستان کی تجارت پر منفی اثر پڑ سکتا ہے، اس کے جواب میں شوکت ترین نے کہا کہ مجھے نہیں لگتا کہ ہمیں اس بات کی فکر کرنی چاہیے کہ یورپی ممالک ہمارے ساتھ کیا کریں گے۔
شوکت ترین کا کہنا تھا یورپی یونین کے نمائندوں نے پاکستان کو ایک خط بھیجا تھا، جس میں اس سے روس کے خلاف ووٹ دینے کا کہا گیا تھا، جس پر ہمارے وزیر اعظم نے صرف اپنے جذبات کا اظہار کیا۔یورپی یونین بھارت کی جانب سے اقوام متحدہ اور عالمی قوانین کی خلاف پر خاموش رہا اور پاکستان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں صرف ووٹنگ سے گریز کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے صرف عوامی جلسے میں اس پر اپنا رد عمل دیا جو شاید نہیں ہونا چاہیے تھا۔عمران خان کے مؤقف کا دفاع کرتے ہوئے شوکت ترین نے کہا کہ یورپی یونین کو یہ نہیں کہنا چاہیے کہ پاکستان کیا کرے اور یہ وزیراعظم کا حق ہے کہ وہ فیصلہ کریں کہ اپنے ملک اور اس کے وقار کو کس طرح محفوظ کرنا ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کی ایک آزاد خارجہ پالیسی ہے جس کے مطابق کوئی بھی ملک دوسرے کی خود مختاری کی خلاف ورزی نہ کرے اور تنازعات کو پرامن طریقے سے حل کیا جائے، انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے صرف وہی بات کی جو ضروری تھی۔

یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے وہاڑی میں ایک عوامی جلسے کے دوران خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے سوال کیا تھا کہ کیا یورپی یونین نے مقبوضہ کشمیر میں بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیوں پر بھارت سے سوال کیا تھا۔وزیر اعظم نے اپنی تقریر کے دوران یورپی یونین کے 23 سفیروں کے لکھے گئے خط کا حوالہ دے رہے تھے، جس میں پاکستان پر زور دیا گیا تھا کہ وہ روس کے یوکرین پر حملے کے اقدامات کی مذمت میں ان کے ساتھ شامل ہو اور اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قانون کے بنیادی اصولوں کو برقرار رکھنے کے لیے آواز اٹھائے۔

ایک سوال کے جواب میں شوکت ترین نے کہا کہ ہم پیٹرولیم مصنوعات پر 104 ارب روپے کی سبسڈی اپنے بجٹ سے دے رہے ہیں جس پر آئی ایم ایف کو تحفظات نہیں ہونے چاہئیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان نہ تو اپنے مالیاتی خسارے میں اضافہ کر رہا ہے اور نہ ہی عوام کو ریلیف دینے کے لیے کوئی قرضہ لے رہا ہے، حکومت نے محصولات میں بہتری کی وجہ سے سبسڈی کا اعلان کیا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان نہ تو اپنے مالیاتی خسارے میں اضافہ کر رہا ہے اور نہ ہی عوام کو ریلیف دینے کے لیے کوئی قرضہ لے رہا ہے، حکومت نے حصولات میں بہتری کی وجہ سے سبسڈی کا اعلان کیا،وزیر خزانہ نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ پیکج کے لیے حکومت نے احساس پروگرام کی مختص رقم اور کوویڈ 19 بجٹ سے کچھ رقم نکالی۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے سرکاری اداروں سے منافع بھی حاصل کیا تھا جبکہ بہت سے ایسے سیکٹرز تھے جہاں سے حکومت نے امدادی پیکج بنانے کے لیے پیسے جمع کیے، مجھے نہیں لگتا کہ آئی ایم ایف کو اس سے کوئی مسئلہ ہونا چاہئے۔انہوں نے کہا کہ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ انہیں سیاسی عدم استحکام کے خدشات کے پیش نظر ایسے فیصلوں سے آگاہ کرے۔

شوکت ترین کا کہنا تھا کہ جب تک صنعت ترقی نہیں کرے گی ملک ترقی نہیں کرسکتا، ہماری حکومت کی جانب سے صنعتوں کی بحالی کے لیے پیکج دیا گیا، پیکج کا مقصد بیمار صنعتوں کی بحالی اور مضبوطی ہے، حکومت نے پیٹرول کی قیمت کو کم کیا اور سیل ٹیکس کو صفر کیا۔انہوں نے بتایا کہ عالمی سرمایہ کاروں کی تنظیم نے کہا ہے کہ ہم اپنے خطے میں 6 ممالک سے بہتر ہیں جبکہ 2003 میں جو سروے کیا گیا تھا اس کے مطابق ہم 3 ممالک سے بہترے ہیں، سروے میں بتایا گیا ہے ایز آف ڈوئنگ بزنس میں بہتری آئی ہے، ملک میں سرمایہ کاری اور کاروبار کرنے کے لیے آسانیاں فراہم کی گئی ہیں، پاکستان کے امیج اور تاثر کا بڑا مسئلہ ہے، ہمیں اپنا بہتر امیج پیش کرنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ ملک کے سیاسی حالات اور عالمی حالات کے باعث بہت سی اچھی چیزیں نمایاں نہیں ہوپاتیں، ایک بہت اہم پیش رفت جس پر بہت کم توجہ دی گئی وہ ہمارے تجارتی خسارے کا کم ہونا ہے، یہ بہت اہم خبر ہے کہ تجارتی خسارہ گزشتہ ماہ کے مقابلے میں 28 فیصد اور اس گزشتہ ماہ کے مقابلے میں 35 فیصد کم ہوا ہے جس کے بعد ہمارا تجارتی خسارہ کم ہو کر 5، 6 سو ملین ہوگیا ہے۔

وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ جنوری کے دوران مہنگائی کی شرح 13 فیصد کے قریب رہی جو اس مہینے کم ہو کر 12.2 فیصد ہوگئی جبکہ اس میں فصل کی تباہی کے باعث ٹماٹر کی بڑھتی قیمتیں بھی شامل ہیں، اگر مہنگائی کی شرح سے ٹماٹر کی قیمتوں کو نکال دیں تو یہ شرح 10 فیصد کے قریب بننتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے مقامی سطح پر قیمتوں پر قابو پایا ہوا ہے جبکہ عالمی سطح پر ہونے والی مہنگائی کے باعث دنیا بھر میں اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے، اس لیے امریکی صدر نے بھی اپنے عوام کو کہا ہے کہ کچھ عرصے تک مہنگائی برداشت کرنی پڑے گی۔ان کا کہنا تھا کہ آئی ٹی کا شعبہ ملک کے لیے بہت اہم ہے، آئی سیکٹر ملک کی برآمدات کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے، اس لیے ہم نے اس شعبے کو ترقی دینے کے لیے کئی مراعات دیں، ہمیں امید ہے ہماری حکومت کے اقدامات سے آئی ٹی کے شعبے میں ملک کی برآمدات میں اضافہ ہوگا۔

ن لیگ کے پی ٹی آئی اورعمران خان پرمنی لانڈرنگ کے الزامات

وزیراعظم کے دورہ چین سے متعلق سوال کے جواب میں شوکت ترین نے کہا کہ ہم نے دورہ چین کے دوران 4 چیزوں پر بات کی، دورے کے دوران سی پیک میں حائل رکاوٹوں سے متعلق بات چیت کی گئی، ہم نے اس کے علاوہ زراعت سے متعلق بات چیت کی گئی، ہم نے بات کی کہ زرعی پیداوار بڑھانے کے سلسلے میں ہماری مدد کی جائے، اس کے علاوہ آئی ٹی کے شعبے میں تعاون کے سلسے میں بھی بات چیت کی گئی، باہمی تجارت سے متعلق بھی اہم تبادلہ خیال کیا۔انہوں نے بتایا کہ دورہ چین کے دوران وزیراعظم سے چینی صدر سے ملے، اس کے ساتھ ساتھ چین کی 22 بڑی کمپنیوں کے نمائندوں نے وزیراعظم سے ملاقات کی اور اربوں ڈالر کے منصوبوں پر بات چیت ہوئی۔

Back to top button