عمران خان کا سکور کارڈ

تحریر:ماریہ میمن ، بشکریہ :اردو نیوز

عمران خان کے اقتدار کا سورج غروب ہوا۔ اگر ان کے دورِ حکومت پر نظر دوڑائی جائے تو وہ اس ملاح کی طرح نظر آئے جو اپنی کشتی میں ایک طرف چھوٹے سوراخ کو بند کرنے کے لیے جو تختے لگاتا ہے اس سے اور بڑے سوراخ ہوتے چلے جاتے ہیں اور آخر کار جہاز زیر آب آجاتا ہے۔

یہ تو مثال تھی جہاز کے کپتان کی مگر ان کے بارے میں کھیل کے کپتان کی مثالیں بھی مقبول ہیں۔ اب یہ میچ تو ان کی ہار پر ختم ہوا۔ یہ سکور کارڈ ہی بتائے گا کہ نوبت اس حد تک کیسے پہنچی۔ اس کہانی کا آغاز تو الیکشن جیتنے سے ہوتا ہے اور اس کہانی کے سب سے پہلے کردار تو عثمان بزدار ہیں۔ تخت لاہور پر بٹھانے کے لیے کپتان کی نظر انتخاب پر مخالفین حیران اور ساتھی پریشان ہوئے۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ساتھیوں کی پریشانی تشویش میں بدلی مگر کپتان نے اپنے وسیم اکرم پلس پر اعتماد کم نہیں کیا۔ پنجاب میں کوئی ضمنی الیکشن نہیں جیتا جاسکا، بیوروکریسی میں آئے روز تبدیلیاں اور ان تبدیلیوں کے پیچھے طرح طرح کی کہانیاں گردش کرتی رہیں۔ یہ کشتی کا وہ سوراخ تھا جو باوجود کوشش کے بند نہیں کیا جاسکا۔ پنجاب میں گورننس کا سکور کارڈ اگر صفر نہیں تو بس سنگل ہندسے میں ہی ہوگا۔

پنجاب کے ساتھ ہی وفاق میں بہت دھوم دھام سے حکومت بنی۔ اس بات کا البتہ ادراک کم نظر آیا کہ حکومت صرف آدھ درجن ووٹوں کی اکثریت سے قائم ہوئی۔ ایک جارح کپتان کی طرح خان صاحب نے آخری دن بلکہ اب تو کہنا چاہیے آخری رات تک یہ تأثر نہیں دیا کہ ان کو کوئی سیاسی طور پر بھی معاملات کو مینیج کرنا ہے۔اس محدود اکثریت کے باوجود انہوں نے سولو فلائٹ کی ہی پالیسی کو اپنائے رکھا۔ پی ٹی آئی کی انتخابی اور بعد از انتخاب کامیابی جہانگیر ترین کی مرہون منت تھی۔ ترین کو مگر فوراً ہی دیس نکالا مل گیا۔

اس کے بعد لاہور میں ان کے خلاف وزارت داخلہ کے تحت تفتیش بھی ہوئی اور اس وقت تک نہیں رکی جب تک انہوں نے دو درجن کے قریب ایم پی ایز اکٹھے کرکے سامنے نہیں لے آئے۔ اسی دوران پارٹی کی اندرونی لڑائی بدستور چلتی رہی۔ وزارتوں میں ردوبدل بھی معمول رہا۔ غیرسیاسی مشیر آہستہ آہستہ منتخب سیاست دانوں کی جگہ لیتے رہے۔ اتحادیوں کے شکوے بھی موجود تھے مگر کام چلتا رہا حتیٰ کہ جب فیصلے کی گھڑی آئی تو پارٹی میں کئی گروپس بن گئے اور اتحادی بھی دوسری طرف ہوگئے۔

پرویز الٰہی کو وزارت اعلیٰ پر منایا گیا مگر ان کی مختصر پارٹی کے اپنے دو ساتھی بھی اپوزیشن کے ساتھ نظر آئے۔ اس دوران خان صاحب نے عوام سے براہ راست رابطہ برقرار رکھا۔ میڈیا سٹریٹجی عروج پر رہی۔ پارٹی ترجمانوں کی تعداد درجن بھر ہو گئی مگر اپنی ہی پارٹی کے ناراض ارکان کے لیے نہ کوئی سٹریٹجی تھی اور نہ کوئی ترجمان جو ان سے رابطے بحال کرسکیں۔

اپوزیشن اگر اپوزیشن میں ہوتے ہوئے بجائے اپنے ایم این ایز کھونے کے اگر حکومتی پارٹی کے ایم این ایز کو ملانے میں کامیاب ہوئی تو اس کو اخلاقی طور پر ہدف تنقید بنایا جاسکتا ہے مگر حکومت کی سیاسی سمجھ بوجھ پر سوالیہ نشان بہرحال رہیں گے۔ عمران خان صاحب کا معیشت اور گورننس پر دعوے سادہ مگر بلند بانگ رہے۔ ان کے پاس بڑے مسائل کے سادہ اور فوری حال تھے۔

اچھے حکمران ہونے کا مطلب کرپشن میں کمی جس کا مطلب معاشی ترقی، مطلب معاشی خود مختاری۔ اس طرح کی شارٹ کٹ اپروچ خارجہ میدان میں بھی نمایاں رہی۔ ہم دنیا کے تقریباً تمام بڑے تنازعات میں ثالث بننے کے دعوے دار بھی ہوئے اور بیرونی دورے صرف معمول کی کارروائی نہیں بلکہ گویا سفارتی فتوحات تھیں۔

حقیقت البتہ اس کے برعکس رہی۔ آئی ایم ایف سے سرد مہری کے بعد ان کے پاس جانا پڑا اور اس دوران تین وزرائے خزانہ قربان ہوگئے۔ مہنگائی کا ایک طوفان آیا اور پھر آتا ہی چلا گیا۔

یہ طوفان شروع میں دوائیوں اور یوٹیلٹی بلز میں نظر آیا اور محدود آمدنی والوں کے لیے سوہانِ روح بن گیا۔ خارجہ میدان میں فتوحات کے ثمرات معاشی میدان میں نظر آتے ہیں مگر اس میں باوجود دعوؤں کے خاطر خواہ بہتری نظر نہیں آئی۔

بحران، بحران اور پھر بحران

سکور کارڈ میں سیم پیج کا ذکر واضح اور اشاروں کنایوں میں ہوتا ہے۔ حکومت کے وزرا اور عمران خان صاحب نے اس کا بارہا اظہار کیا کہ سابق حکومتوں کے برعکس ان کے اداروں سے مثالی تعلقات ہیں۔ اس کے نتیجے میں ان کو سیاسی اور انتظامی سپورٹ بھی ملتی رہی۔ پارلیمنٹ میں قانون سازی ہو یا کورونا وبا میں حکمت عملی، ہر جگہ سیم پیج کے ثمرات آئے۔ حکومت کے پہلے دن سے ان کے آخری دن کے سفر کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہاں بھی فاصلے نظر آتے ہیں۔

آخر میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ اگر حکومت اپنی مدت پوری نہیں کرسکی تو اس کے ایک نہیں کئی عوامل ہیں۔ یہ عوامل انتظامیہ، سیاست، معیشت اور سفارت کے شعبوں پر محیط رہے۔ اب آنے والی حکومت کے لیے بھی چیلنجز کا انبار ہے اور جانے والی حکومت اور پارٹی کے لیے سوچ بچار کا مقام ہے۔

Back to top button