امریکہ میں مقیم "عاشقانِ عمران” کی محدود سوچ

تحریر : نصرت جاوید

بشکریہ: روزنامہ نوائے وقت

عاجزی وانکساری میرے ساتھی رئوف کلاسرا کی امتیازی صفت ہے۔ وہ ’’دانشوری‘‘ کا دعویٰ بھی نہیں کرتا۔ کبھی کبھار مگر روانی میں ایسا فقرہ کہہ ڈالتا ہے جو سوچنے کو مجبور کردیتا ہے۔
نئے سال کے آغاز کی صبح ہم لاہور کے ایک مشہور ہوٹل میں ناشتے کی میز پر بیٹھے ہوئے تھے۔ گفتگو کا رخ امریکہ میں مقیم پاکستانیوں کی جانب مڑ گیا۔ ان کے ذکر کے دوران رئوف نے ایک دوست کے حوالے سے حیرت کا اظہار کیا کہ دنیا کی مشہور ترین یونیورسٹیوں کے حامل دنیا کی واحد سپرطاقت کہلاتے ملک میں بیٹھے پاکستانی ہم لوگوں کو زندگی کے مختلف شعبوں کے بارے میں تازہ ترین اور حیران کن حقائق سے آگاہ رکھنے کے بجائے ان یوٹیوبرز کو نہایت عقیدت سے سننے کو ترجیح دیتے ہیں جو پاکستان ہی میں رہتے ہوئے ہمارے سیاسی نظام کو برا بھلا کہتے رہتے ہیں۔
تحریک انصاف کے بانی میں ’’مسیحا‘‘ بھی ایسے ہی افراد نے ڈھونڈ رکھا ہے۔ رئوف نے جو بات کہی اس نے مجھے چونکا دیا۔ غالباََ اسی کی کہی بات ہی کی وجہ سے میں اس لگڑبگڑ گویے کے پیچھے پڑگیا جو خود کو ’’صوفی‘‘ پکارتا ہے مگر زلمے خلیل زاد کے ساتھ فدویانہ مسکراہٹ کے ساتھ تصویر بنواکر سوشل میڈیا پر پھیلادیتا ہے۔ نو منتخب صدر نے اپنے معاونین کی جو ٹیم نامزد کی ہے یہ ان میں سے چند لوگوں سے تعلق قائم کرنے کو بہت بے چین ہے۔ ٹرمپ کی جانب سے وینزویلا اور شمالی کوریا کے لئے نامزد ہوا ’’خصوصی سفیر‘‘ رچرڈ گرنیل اس کی توجہ کا خصوصی مرکز ہے۔ اکثر مجھ جیسے ’’گستاخوں‘‘ کے خلاف X وغیرہ پر پیغام لکھتے ہوئے رچرڈ کو ان میں ’’ٹیگ ‘‘کر دیتا ہے۔ انٹرنیٹ کے دور میں یہ گھرجاکے شکایت لگانے کا نیا انداز ہے۔ اگرچہ مجھ بدنصیب نے دونمبر کے صوفی کی ’’چیچی‘‘ (چھوٹی انگلی) میں لگاچھلااتارنے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی۔
بہرحال پاکستان کے ’’نظام کہنہ‘‘ سے اکتا کر امریکہ منتقل ہوئے میرے سابقہ (یہ لفظ میں نے بہت سوچنے کے بعد لکھا ہے) ہم وطنوں کی اکثریت اپنے مسیحا کی جیل میں بندش سے بہت پریشان ہے۔ان میں سے جو لوگ میڈیکل کے شعبے سے وابستہ ہیں بہت خوشحال ہیں۔ طاقتور لوگوں کے معالج ہونے کی وجہ سے ان کے امریکی پارلیمان کے کئی اراکین کے ساتھ فیملی مراسم بن چکے ہیں۔ اپنی رسائی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عاشقان عمران نے امریکی پارلیمان سے اپنے ممدوح کی حمایت میں ریکارڈ تعداد کے ساتھ ایک قرارداد منظور کروالی۔ بانی تحریک انصاف مگر اس کے باوجود جیل ہی میں ہیں۔ امید اب یہ باندھی جارہی ہے کہ 20جنوری 2025ء کو صدارتی حلف اٹھانے کے چند ہی گھنٹوں بعد ٹرمپ کسی نہ کسی انداز میں ریاست وحکومتِ پاکستان کو یہ پیغام دے گا کہ وہ عمران خان کے ساتھ ہوئے سلوک سے ناخوش ہے۔ پاکستان کو اپنی معیشت بچانے کے لئے اسے جلد از جلد رہا کرنا ہوگا۔
امریکہ سے کہیں دور اپنے گھر میں گوشہ نشین ہوا میں قلم گھسیٹ یہ طے کرنے کے قابل نہیں کہ ٹرمپ سے عاشقان عمران جو امید باندھے ہوئے ہیں وہ پوری ہوگی یا نہیں۔ امریکی سیاست اور عالمی امور کا دیرینہ طالب علم ہوتے ہوئے تاہم یہ اصرار کرنے کو مجبور محسوس کررہا ہوں کہ ٹرمپ پاکستان جیسے ملکوں کے لئے بری خبریں ہی لائے گا۔ ’’بری خبر‘‘ کا آغاز عالمی منڈی میں تیل کی قیمت میں اضافے سے ہوچکا ہے۔ گزشتہ کئی مہینوں سے عالمی منڈی میں فی بیرل کی قیمت 70سے 72ڈالر تک محدود رہی تھی۔ اس کی بدولت پاکستان میں پٹرول، ڈیزل اور مٹی کے تیل کی قیمتیں نسبتاََ قابل برداشت نظر آنا شروع ہوگئیں۔ گزشتہ دس دنوں سے مگر عالمی منڈی میں تیل کی قیمت مسلسل بڑھ رہی ہے۔ بدھ کی رات سونے سے قبل انٹرنیٹ پر چیک کیا تو تیل کے ایک بیرل کی قیمت 80ڈالر سے تجاوز کرچکی تھی۔ عالمی منڈی میں تیل کی قیمت میں اضافے کی وجہ سے حکومت پاکستان نے بھی پٹرول کی قیمت میں تین روپے سینتالیس پیسے اضافے کا اعلان کردیا ہے۔ ڈیزل بھی 2.61روپے مہنگا ہوگیا ہے۔
عالمی منڈی میں تیل کی قیمت میں اضافے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ امریکہ اس امر کو یقینی بنانا چاہ رہا ہے کہ اس کی جانب سے روسی تیل کی عالمی منڈی میں فروخت پر لگائی پابندی موثر ثابت ہو۔ اس ضمن میں وہ چین سے زیادہ بھارت سے نالاں ہے۔ بھارت بڑے چائو سے گزشتہ تین دہائیوں سے امریکہ کا ’’سٹرٹیجک اتحادی‘‘ بنا تھا۔ مودی اور ٹرمپ کے مابین جپھیوں پپیوں کے باوجود بھارت نے روس سے یوکرین کے خلاف شروع ہوئی جنگ کے بعد سے ریکارڈ تعداد میں خام تیل خریدنا شروع کردیا۔ روس نے اپنے پرانے دوست کو خام تیل سستے داموں بیچا۔ اس تیل کو بھارت میں امبانی گروپ اور روس کی لگائی ریفائنریوں میں صاف کرنے کے بعد جو ڈیزل نکلا وہ اور اپنی ضرورت سے زیادہ تیل بھارت نے دیگر ممالک کو فروخت کرتے ہوئے زبردست سیزن لگایا۔
بھارت کے مقابلے میں امریکہ کی روسی تیل پر لگائی پابندیوں کی وجہ سے پاکستان وہاں سے سستا تیل اس لئے بھی حاصل نہ کرپایا کہ ہمارے ہاں روسی خام تیل کو ’’مصفا ‘‘بنانے والی ریفائنریاں موجود نہیں۔ ایران ہمارا قریب ترین ہمسایہ ہے۔ ہم اس ملک کا تیل بھی امریکی پابندیوں کی وجہ سے پائپ لائن بچھا کر حاصل نہیں کر پائے ہیں۔

آئین میں درج اصول یاد آگئے!3

تیل کی قیمت میں ہوشربا اضافے کے علاوہ مجھے یہ پریشانی بھی لاحق ہے کہ امریکہ کو ’’دوبارہ عظیم‘‘ بنانے کے جنون میں ٹرمپ غیر ملکوں سے آئی اشیاء پر ٹیکس میں اضافے کو تلا بیٹھا ہے۔ امریکہ ان چند ممالک میں نمایاں ترین ہے جو ہمارے ساتھ تجارت کے حوالے سے خسارے میں ہے۔ ہم اوسطاََ اس ملک کو کم از کم تین ارب ڈالر سالانہ کی ٹیکسٹائل مصنوعات بیچتے ہیں۔ پاکستان کے ساتھ ’’تجارتی خسارے‘‘ کو نگاہ میں رکھتے ہوئے ٹرمپ ہمارے ہا ں سے امریکہ جانے والی ٹیکسٹائل مصنوعات پر بھاری بھر کم ٹیکس عائد کرسکتا ہے جو ہماری ٹیکسٹائل انڈسٹری کے لئے تابوت کا آخری کیل ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ بجلی کی ناقابل برداشت قیمت کی وجہ سے ہماری مصنوعات ویسے بھی دیگر ممالک میں تیار ہوئی مصنوعات کے مقابلے میں مہنگی ہوچکی ہیں۔ ٹرمپ کے لگائے ٹیکس کے بعد انہیں خریدنے کو کوئی صارف تیار ہی نہیں ہوگا۔ بدقسمتی سے جن پہلوئوں کی جانب میں توجہ دلارہا ہوں وہ امریکہ میں مقیم پاکستانی نڑاد عاشقان عمران کے ذہن میں آہی نہیں رہے۔ انہیں فقط اپنے ممدوح کی رہائی درکار ہے۔ اللہ اللہ خیر صلٰی۔

Check Also
Close
Back to top button