شاہد کے ’خواب‘
تحریر:مظہرعباس۔۔۔۔۔۔۔بشکریہ:روزنامہ جنگ
یہ ایک ایسے صحافی کی کہانی ہے جس نے اپنی کتاب کا نام ہی ’خواب لے لو خواب‘ رکھا کیونکہ اس کے بہت سے خواب خواب ہی رہے مگر وہ پھر بھی اپنی زندگی سے مطمئن تھا۔ ایک دن مجھ سے کہنے لگا، ’’یار اب میں 70 سال کا ہوگیا ہوں سارے بچوں کو پڑھایا اب وہ اپنے گھروں میں ہیں اور میں لکھتے لکھتے بوڑھا ہوگیا ہوں مگر اب بھی کام کررہا ہوں چلتے پھرتے لکھتے پڑھتے ہی چلا جائوں تو کیا بات ہے‘‘۔ اور پھر ایسا ہی ہوا روز اس کا فون آتا ’’پریس کلب کب آئو گے‘‘۔ اس روز وہ کلب نہیں آیا صرف اس کے انتقال کی خبر آئی۔
اپنی اہلیہ نسرین سے بہت محبت کرتا چند سال پہلے اس کا انتقال ہوا تو وہ ٹوٹ سا گیا،اپنی کتاب میں اس حوالے سے لکھتا ہے، ’’میں اسے تھرپارکر لے گیا تو بہت خوش ہوئی میں نے کہا یہیں گھر بنائیں گے۔ اس رات ہم ایک بجے تک باتیں کرتے رہے منصوبے بناتے رہے۔ تین بجے اس کی طبیعت خراب ہوئی اسپتال لے کر بھاگے چار بجے اس کا انتقال ہوگیا۔‘‘
شاہد حسین زمانہ طالبعلمی میں بائیں بازو کی طلبہ تنظیم این ایس ایف سے وابستہ تھا بعد میں کمیونسٹ پارٹی کے انڈر گرائونڈ سیل میں بھی رہا۔ شاہ ایران کا جشن شہنشایت، مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن اور اس طرح کے دیگر موضوعات پر پمفلٹ وہی لکھتا تھا۔ ایک دن بہت سےکامریڈ ساتھیوں کے ساتھ پکڑا گیا جن میں نیشنل عوامی پارٹی کے جنرل سیکرٹری محمودالحق عثمانی، جاوید شکور، تنویر پہلے سے ہی گرفتار تھے۔ انور پیرزادہ اور ایک دو ایئرفورس کے لوگ بھی شامل تھے۔ ان کو بغاوت کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ خود پر ہونے والے تشدد کا ذکر کرتے ہوئے شاہد نے لکھا ’’ایک دن میری والدہ مجھ سے ملنے آئیں جیلر منظور پنہور سمجھا کہ میں نے والدہ کو کوئی خط دیا ہے اور اس نے میری گدی پر ایک ہاتھ زور سے مارا اور پھر اس کے ماتحتوں نے بھی مارنا شروع کردیا۔ مجھے ڈنڈا بیٹری لگادی گئی اور بند وارڈ میں بند کردیا جہاں روز مارا جاتا‘‘۔ شاہد کا ٹرانسفر لانڈھی جیل میں ہوا تو وہاں بھی اس پر تشدد ہوتا رہا۔ اسے ’چرایا وارڈ‘ میں بند کردیا گیا، ’’میں ایک کھولی میں تھا، سخت سردی تھی، بغیر کمبل زمین پر لیٹا تھا۔ ڈنڈا بیٹری میرے ٹخنوں کو چھیل رہی تھی۔ وہ بڑی اذیت کی رات تھی‘‘۔
شاہد کی کہانی پڑھ کر مجھے اپنے ایک اور صحافی صبیح الدین غوثی یاد آگئے۔ پی پی پی کے ایک سیاسی کارکن جاوید چوہدری نے بتایا تھا کہ ہم جب میانوالی جیل میں تھے تو ایک دن ہم نے دیکھا کہ اس کو بیڑیاں لگی ہوئی ہیں ہم نے احتجاج کیا جیلر سے کہ یہ ڈان اخبار کا صحافی ہے کیا آزادی صحافت کی بات کرنا اتنا بڑا جرم بن گیا۔ اس پر بیڑیاں کھول دی گئیں۔ شاہد نے یہ تجربہ صحافت میں آنے سے پہلے کرلیا تھا۔
اس نے صحافت میں آنے سے پہلے روس کے انفارمیشن ڈپارٹمنٹ میں کام کیا پھر قومی اور بین الاقوامی اخبارات اور رسائل میں رپورٹنگ بھی کی اور کالم بھی لکھے جن میں دی مسلم، دی نیوز، ڈیلی ٹائمز، برطانیہ کے گارجین اور آخری وقتوں میں ’دی سنڈے انڈین‘ کیلئے کام کررہا تھا۔ اس کے علاوہ ہیرلڈ، بزنس ٹوڈے، بزنس ریکارڈر اور دیگر اخبارات میں بھی کام کیا۔ مگر جیل میں ہونے والے تشدد نے اس کا نروس بریک ڈائون کردیا تھا بلوچستان کے سابق گورنر میر غوث بخش بزنجو اسے علاج کیلئے باہر بھیجنا چاہتے تھے تاہم وہ ہو نہ سکا اور وہ کام کے ساتھ ڈاکٹر ہارون ماہر نفسیات سے علاج بھی کراتا رہا۔ چونکہ ڈاکٹر صاحب خود زمانہ طالبعلمی میں متحرک رہے تھے اس لئے وہ شاہد کی بیماری کو سمجھتے تھے۔ شاہد افسانہ بھی لکھتا تھا بس یوں کہیےکہ جو اس کے دماغ میں آتا لکھ ڈالتا اور ایسے ہی موضوعات کا انتخاب کرتا۔ نہ اپنے بچپن سے جوانی تک کے عشق کی داستانیں پوشیدہ رکھیں نہ اپنی اہلیہ نسرین سے ملاقاتیں، ’’انچولی میں میرا اور نسرین کا گھر آمنے سامنے تھا۔ وہ نجی کمپنی میں کمپیوٹر آپریٹر تھی۔ اکثر اس پر نظر پڑجاتی۔ پھر ایک دوسرے کے گھر آنا جانا شروع ہوگیا۔ وہ بڑی سادہ اور ہمت والی لڑکی تھی۔ میں ایک بار شدید ڈپریشن کا شکار ہوا تو ماموں نے والدہ کو بتایا وہ کہنے لگیں، اس کی شادی کردو ٹھیک ہوجائے گا۔‘‘
’سانپ‘ کے موضوع پر اس کی مختصر تحریر پورے معاشرےکی عکاسی کرتی ہے کیونکہ ہمارے یہاں ہر طرف آستینوں میں سانپ ہی ہیں پتا اس وقت چلتا ہے جب آپ انہیں دودھ پلاتے ہیں اور پھر وہ ڈس کر اپنا مسکن بدل لیتے ہیں۔ ’’ذہن کہتا ہے تم نے آستین میں سانپ پالے ہوئے ہیں جو کئی بار ڈس چکے ہیں لیکن ان سے بچنے کے بجائے تم انہیں دودھ پلارہے ہو۔ خوف نہیں آتا؟ دل سے پوچھو تو کہتا ہے کہ پروا نہیں۔ اب رگوں میں زہر دوڑتا ہے۔ یہ کاٹیں گے تو نشہ دوآتشہ ہوجائے گا اور یہ خود زمین پر گر پڑیں گے‘‘۔
ہم نے اپنے اردگرد اتنی نفرتیں اور منافقت پھیلالی ہے کہ پتاہی نہیں چلتا ’آستینوں‘ کا۔ اپنی سیاست میں ہی دیکھ لیں جب کوئی ’وفاداری‘ تبدیل کرتاہےتو افسوس کے سوا لیڈر کے پاس کہنے کیلئے کچھ نہیں رہتا کیونکہ زہر اپنا کام دکھا چکا ہوتا ہے۔ جب ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی ہوئی تو وہ ان دنوں کا اکثر ذکر کرتاکہ کس طرح ریاست معاملات کو چلارہی ہے اسی طرح مشرقی پاکستان میں جو کچھ بنگالیوں اور بلوچستان میں بلوچوں، سندھ میں تو سندھی اور اردو بولنے والے ریاستی جبر کا شکار ہوئے اس سے سبق سیکھنے کی بجائے آج بھی ایک دوسرے کو مارتے رہتے ہیں۔ وہ کہتا تھا ایک خیبرپختونخوا خوش پوش تحریک اور غفار خان کا تھا اور ایک طالبان اور ان کے حامیوں کا ہے، فرق خود کرلیں۔ ریاست نے خوش پوش تحریک کو کچل دیا اور دوسرے کو دودھ پلاکر بڑا کیا اب ریاست کی آستینوں سے نکلے ہوئے اسی کو ڈس رہے ہیں اور زہر اتنا پھیل گیا ہے کہ مرض لاعلاج ہوتا جارہا ہے۔
کراچی پریس کلب کے کونے میں بیٹھا ،اپنے مخصوص انداز میں سگریٹ کے کش لیتے ہوئے شاہد یہ ساری باتیں کرتا۔ جس رات اس کا انتقال ہوا اس نے کوئی چار بجے پروفیسر توصیف کو فون کیا وہ اور میں ہمدرد یونیورسٹی سے واپس آ رہے تھے ایک سیمینار سے۔ وہ جاننا چاہ رہا تھا کہ ہم لوگ پریس کلب آئیں گے یا نہیں۔ توصیف نے کہا، ’’کل ملتے ہیں‘‘ ہمیں کیا پتا تھا کہ اب ہماری ملاقات انچولی کی امام بارگاہ میں ہو گی جہاں اس کی نماز جنازہ میں شرکت کررہے ہونگے۔ ایک اور اچھا دوست اور خوددار صحافی رخصت ہوا۔