وقت آ گیا ہے کہ عمران خان اپنی متبادل قیادت تیار کریں
سینئر صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس نے کہا ہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کو اب پارٹی کی قیادت کرنے کے لیے اپنا متبادل تیار کرنا چاہیئے کیونکہ کسی سیاسی جماعت کا بغیر نظریے کے ایک شخص کے گرد گھومتے رہنا اسکے زوال کا سبب بنتا ہے خصوصا جب پارٹی لیڈر خود پسند بھی ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ متبادل کی تلاش کا بہترین راستہ تحریک انصاف کے اندر الیکشن کروانا ہے۔ اسی طرح آصف زرداری، نواز شریف اور دیگر سیاسی قیادت کو بھی چاہیئے کہ وہ اپنی جماعتوں میں الیکشن کے کلچر کو فروغ دیں تاکہ نئی قیادت سامنے آ سکے۔
اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں مظہر عباس کہتے ہیں کہ عمران ایک سیاسی حقیقت ہیں، 2018ء میں اُن کی حکومت بنانے میں امپائر نے جتنی بھی مدد کی ہو، اس بات کو رَد کرنا ممکن نہیں کہ وہ اب بھی مقبول رہنما ہیں۔ مگر یہ بھی اخک حقیقت ہے کہ پچھلے ایک ماہ میں جو کچھ اسلام آباد میں ہوا، اس میں خان صاحب کے ’’انکار‘‘ کے مقابلے میں اُن کی انا آڑے آ گئی ورنہ تو وہ بہت پہلے ہی قومی اسمبلی میں اپنی اکثریت کھو بیٹھے تھے خصوصا جب ان کے اتحادی ان کا ساتھ چھوڑ گئے تھے۔ کچھ دوستوں نے عمران کو استعفیٰ دینے کا مشورہ بھی دیا مگر انہون نے آخری گیند تک لڑنے کا فیصلہ کیا حالانکہ آخری بال میچ ختم ہونے کے بعد کرائی جائے تو ہمیشہ بے نتیجہ ہوتی ہے۔ یہاں میچ 28 مارچ کو ختم ہوگیا تھا اور 3 اپریل کو صرف نتیجہ سننے کا حوصلہ چاہئے تھا۔
مظہر عباس کہتے ہیں کہ رہ گئی بات متحدہ اپوزیشن کی تو اُن کا سب سے بڑا امتحان تو خود متحد رہنا ہے۔ جو وعدے اور معاہدے کئے گئے اُن پر عمل، پھر ایک سال کے لیے پاور شیئرنگ اور سنگین معاشی بحران اور مہنگائی کا طوفان، نئے وزیر اعظم کے لیے اِن مشکلات پر قابو پانا تقریباً ناممکن نظر آتا ہے۔ اسی لیے بہتر یہی ہوتا کہ پچھلی حکومت کو آخری سال بھی پورا کرنے دیتے تا کہ اس کی چار سالہ ناکامیوں کا بوجھ بھی اگلے الیکشن میں اسی کے کندھوں پر پڑتا۔ انکا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کی صورت میں ایک تگڑی اپوزیشن جو 154 اراکین پر مشتمل ہے، نئی حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہوگا، لیکن اگر انہوں نے قومی اسمبلی سے استعفے نہ دیے۔ پھر وزیراعظم شہباز شریف کو سنگین مقدمات کا سامنا ہے۔
ایسے میں بہتر ہوتا کہ کوئی اور وزارت عظمی کو سنبھالتا اور شہباز شریف اپنے کیسز سے بری ہو کر اگلی مرتبہ پوری مدت کے لیے وزیر اعظم بنتے۔ یہی بات حمزہ شہباز کے لیے کہی جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایک سال میں آپ کیا اصلاحات کرسکتے ہیں اور وہ بھی حزبِ اختلاف کو ساتھ ملا کر۔ اسکے علاوہ سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ عوام کو کیا ریلیف مل سکتا ہے۔
مظہر عباس کا کہنا ہے کہ اگر نواز شریف کی واپسی ہوتی ہے تو سب سے پہلے اُنہیں عدالت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ اور ایسے کئی سوالات اور پھر اہم ترین تقرری۔ نظر یہی آتا ہے کہ چند ماہ کے دوران پاکستان میں بہت کچھ ہونے جارہا ہے۔ رہ گئی بات خان صاحب کی تو اُن کی حکومت ساڑھے تین سال نہ صرف نا تجربہ کاری بلکہ ناقص پالیسیوں کا شکار رہی۔
پنجاب اور سابق وزیراعلیٰ بزدار کے بارے میں بہت لکھا جاچکا ہے۔ تحریک انصاف درجنوں گروپس میں تقسیم ہے۔ خان صاحب پر تو پوری پارٹی متفق ہے مگر اگلا الیکشن محض بیانیے پر نہیں جیت سکتے۔ یہ تو وہ شکر کریں کہ اُن کے دور کی اپوزیشن نے خود ہی اُنہیں یہ سہولت مہیا کر دی کہ وہ کھل کر کھیلنے کی پوزیشن میں آگئے۔ ورنہ جو اس وقت مہنگائی کا عالم ہے اس کے ساتھ وہ آئندہ انتخابات میں جاتے تو جو مظاہرے اتوار کی رات اُن کے حق میں ہوئے وہ 2023ء میں اُن کے خلاف ہوتے۔ عثمان بزدار کا دور اگر ایک سال اور چلتا تو ممکن ہے، فواد چوہدری بھی اُن کے خلاف کھل کر بول پڑتے۔
پی ٹی آئی منحرف اراکین کا ووٹنگ میں حصہ نہ لینے کا اعلان
مظہر عباس کے بقول، جس دن سابق وزیراعظم عمران خان کی حکومت کا خاتمہ ہوا وہ 10اپریل کا دن تھا۔ وہ دن جب آج سے 49 سال پہلے سیاست دانوں نے متفقہ طور پر 1973ء میں اس ملک کو ایک آئین دیا جس کا حلیہ نہ صرف انہوں نے خود بلکہ فوجی آمروں نے بھی بگاڑ دیا۔ جن کو آئین توڑنے پر آرٹیکل 6 کے تحت سزا ہونی تھی اُنہیں آئین میں ترمیم کا اختیار تک دے دیا گیا۔
پاکستان میں قیام پاکستان سے اب تک جس اعلیٰ عدلیہ پر آئین کی حفاظت کی ذمہ داری تھی اُس نے اس کے تحفظ کے بجائے توڑنے والے کو تحفظ دیا اورجن سیاست دانوں اور رہنمائوں کو ان کے خلاف آواز بلند کرنی تھی انہوں نے بدقسمتی سے کبھی جمہوریت کا تحفہ دیا تو کبھی NRO لیا۔ ہاں ایمپائر نیوٹرل ہو جائے تو نتائج ہمیشہ بہتر آتے ہیں۔ لہذا امید کی جانی چاہیے کہ امپائیر اپنی غیرجانبداری آئندہ بھی برقرار رکھے گا اور سیاست میں مداخلت سے گریز کرے گا۔