اپوزیشن قیادت کی غیر سیاسی عہدیدار سے اہم ملاقات

وفاقی دارالحکومت میں خبریں گرم ہیں کہ کچھ عرصہ پہلے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف اور آصف زرداری نے راولپنڈی میں ایک اہم ترین غیر سیاسی عہدیدار سے باری باری ان کی راولپنڈی کی رہائش گاہ پر ملاقاتیں کیں جن کے دوران انہیں سیاسی معاملات میں مکمل طور پر ‘غیرجانبدار’ رہنے کی یقین دہانی کرائی گئی، جس کے بعد وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا فیصلہ کیا گیا۔ بتایا جا رہا ہے کہ اس ملاقات کی نوبت اس لیے آئی کہ ماضی میں اس عہدے پر تعینات شخص پوری طرح سیاست میں ملوث تھا اور یہ الزام عائد کیا جا رہا تھا کہ شاید مستقبل میں بھی یہ سلسلہ جاری رہے۔

لہذا ضروری سمجھا گیا کہ ادارے کے ایما پر اپوزیشن کو اپنے غیر سیاسی ہونے کا یقین دلوایا جائے۔ بتایا جا رہا ہے کہ ادارے کے غیر سیاسی ہونے کی یقین دہانی نہ صرف اپوزیشن کو کروائی گئی ہے بلکہ حکومت کو بھی واضح الفاظ میں بتا دیا گیا ہے کہ ادارہ ماضی کی طرح کسی سیاسی سرگرمی کا حصہ نہیں بنے گا۔

اسلام آباد کے دو معروف تحقیقاتی صحافیوں اعزاز سید اور اسد علی طور کے مطابق اعلی عہدیدار کی یہ دونوں ملاقاتیں ادارہ جاتی ڈسپلن کے عین مطابق ادارے کے سربراہ سے پیشگی اجازت لینے کے بعد ہوئیں۔ ان ملاقاتوں کا بنیادی مقصد یہ واضح کرنا تھا کہ ماضی کو ماضی سمجھا جائے اور اس بات کا یقین کیا جائے کہ مستقبل میں ادارہ کسی سیاسی ایجنڈے کا حصہ نہیں بنے گا۔ تاہم اس وضاحت کا مطلب یہ نہیں تھا کہ اسٹیبلشمنٹ اپوزیشن کے لیے کوئی سافٹ کارنر رکھتی تھی۔ لیکن کہا جاتا ہے کہ یہی وہ یقین دہانی ہے جس کی بنیاد پر اپوزیشن کی قیادت بار بار فوجی اسٹیبلشمنٹ کے نیوٹرل ہو جانے کا تذکرہ کرتی ہے، اور جس کے بعد حزب اختلاف نے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا فیصلہ کیا۔

حزب اختلاف دعویٰ کر رہی ہے کہ اگر فوجی اسٹیبلشمنٹ سیاست میں غیر جانبدار رہنے کے وعدے پر قائم رہتی ہے تو ان کی تحریک عدم اعتماد سو فیصد کامیابی سے ہمکنار ہو جائے گی۔ دوسری جانب ناقدین کا خیال ہے کہ ماضی میں کسی بھی وزیر اعظم کے خلاف پیش کردہ کوئی تحریک عدم اعتماد کامیاب نہیں ہو پائی اور موجودہ تحریک بھی ناکامی سے دوچار ہونے کا خدشہ ہے۔ یاد رہے کہ آئین کے مطابق اگر وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام ہو جائے تو پھر اگلے چھ ماہ دوبارہ سے ایسی کوئی تحریک نہیں لائی جا سکتی۔ دوسری جانب اپوزیشن کا دعوی ہے کہ وہ عمران خان کو ہٹانے کے لیے اپنی نمبرز گیم پوری کر چکی ہے اور حکومتی جماعت کے 38 اراکین کی حمایت حاصل کر چکی یے۔

لیکن حکومتی ذرائع اپوزیشن کے دعووں کو دیوانے کا خواب قرار دے رہے ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ مسلم لیگ قاف، ایم کیو ایم اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس میں سے کسی نے بھی اب تک نہیں کہا کہ وہ اس تحریک کی حمایت کرتے ہیں۔ اسی طرح اب تک حکومتی جماعت تحریک انصاف میں بھی کوئی عمران مخالف باغی دھڑا سامنے نہیں آیا۔ حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ چوہدری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الٰہی کسی بھی صورت ہے نون لیگ کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے، اور نہ ہی نواز شریف اور شہباز شریف چودھریوں کو پنجاب کی وزارت اعلی دینے پر آمادہ ہیں۔ دوسری جانب متحدہ قومی موومنٹ اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس پیپلز پارٹی کے ساتھ بیٹھنے کے لیے تیار نہیں اور چند ایک مزید وزارتیں لے کر خاموش ہو کر بیٹھ جائیں گے۔ جہاں تک بلوچستان عوامی پارٹی یا باپ کا تعلق ہے تو انکا کہنا یے کہ وہ ہمیشہ سے فوجی اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں پر چلتی ہے لیکن اس مرتبہ اسٹیبلشمنٹ بھی نیوٹرل ہے لہذا ایسے میں تحریک عدم اعتماد کیسے کامیاب ہو سکتی ہے۔

دوسری جانب مولانا فضل الرحمن نے عمران مخالف تحریک عدم اعتماد کے لیے نمبرز گیم پوری ہو جانے کا دعوی کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگلے چند روز میں تحریک عدم اعتماد دائر کر دی جائے گی کیونکہ اب پیپلز پارٹی اور نواز لیگ میں اگلا الیکشن جلد کروانے پر بھی اتفاق ہوگیا ہے۔ اس دوران اپنی حکومت بچانے کے لیے وزیر اعظم عمران خان ایک کے بعد دوسری تقریب سے خطاب کر رہے ہیں اور عوامی سطح پر بھی روابط بڑھا دیے ہیں۔ پہلے حکومت کے اتحادی وزیراعظم سے ملاقات کے لیے ترستے تھے اب وزیراعظم خود ان اتحادیوں سے جا کر مل رہے ہیں جس سے وہ سیاسی طور پر کمزور ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔

تاہم سیاسی تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ اگر اسٹیبلشمنٹ واقعی اپنے نیوٹرل ہو جانے کے دعوے پر قائم رہے تو تحریک عدم اعتماد کا حیران کن نتیجہ سامنے آ سکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے نیوٹرل ہونے کا یہ مطلب ہو گا کہ وہ اس مرتبہ وزیراعظم عمران خان کے ساتھ کھڑی نہیں ہو گی جیسے کہ ماضی میں آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کھڑے ہوا کرتے تھے۔ لہذا اس کا فائدہ یقینا اپوزیشن کو ہوگا اور نقصان حکومت کو۔ معروف تحقیقاتی صحافی اعزاز سید اس حوالے سے کہتے ہیں کہ اس وقت راولپنڈی اور اسلام آباد کے مکینوں کے مابین معاملات بہت ذیادہ کشیدہ ہیں اور حادثے کے امکانات اس لیے بھی زیادہ ہیں کہ خاموشی سے ایک دوسرے کیخلاف گھاتیں لگائی جا رہی ہیں اور وارداتیں کی جارہی ہیں جو کسی وقت بھی اعلانیہ طبل جنگ میں بدل سکتی ہیں۔ انکا کہنا یے کہ اسٹیبلشمنٹ کی ایک طاقتور شخصیت پر سے وزیراعظم عمران خان کا اعتماد ختم ہوچکا ہے، اسی لیے وہ ایک اہم فیصلہ کرنے کیلئے دن رات سوچ بچار کر رہے ہیں۔

اگر انکا یہ مسئلہ حل ہو گیا تو اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد ناکام ہو جائے گی لیکن اگر یہ معاملہ بگڑ گیا تو عمران کی حکومت ختم ہو جائے گی۔ اعزاز کہتے ہیں کہ گر عمران خان کو واضح نظرآگیا کہ وہ گھر جا رہے ہیں تو وہ اکیلے نہیں بلکہ ’’کسی‘‘ اور کو بھی ساتھ لے کر ہی جائیں گے۔

اسی تناظر میں بات کرتے ہوئے کچھ حکومتی ذرائع نے تو یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ اگر وزیراعظم عمران خان کو اپنے اقتدار سے نکلنے کا یقین ہو گیا تو وہ اپنے دعوے کے عین مطابق خطرناک ہو جائیں گے اور ڈوبتے ڈوبتے صنم کو بھی ساتھ ہی لے ڈوبیں گے کیونکہ ایسا کرنا آئینی طور پر ان کے اختیار میں ہے۔

اعزاز سید کا کہنا یے کہ اب اقتدار کا کھیل اپنے فائنل راؤنڈ میں داخل ہونے والا ہے مگر شاید اسکے انجام کا علم کھیل شروع کرنیوالوں کو بھی نہیں۔ اعزاز کے بقول اس کھیل کا باقاعدہ آغاز تب ہوا جب آصف زرداری اور شہباز شریف اسلام آباد میں تعینات ایک افسر سے راولپنڈی میں اسکے گھر الگ الگ جاکر ملے۔

دونوں کو بتایا گیا کہ’’ہم نیوٹرل ہیں‘‘۔ نیوٹرل ہونے کے اعتماد سے ہی دونوں رہنما پرجوش نظر آئے اور پھر اگلے چند ہفتوں میں عمران کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا فیصلہ سامنے آگیا۔ اعزاز کا کہنا ہے کہ عمران مخالف تحریک عدم اعتماد پیش ہونے سے پہلے پی ٹی آئی کے مشکوک اراکین کی شکایات دور کی جائیں گی اور انہیں رام کیا جائے گا۔ جو لوگ رام نہیں ہونگے شاید وہ تحریک عدم اعتماد کے روز غائب کردئیے جائیں کیونکہ اس روز ایوان میں اکثریت ثابت کرنا حکومت کی نہیں بلکہ اپوزیشن کی ذمہ داری ہوگی۔ حکومت تو شاید ایوان میں بھی نہ آئے۔

اس وقت پی ٹی آئی کے اندر ناراض ارکان قومی اسمبلی کی تعداد کم و بیش پندرہ سے بیس ہے اور اپوزیشن کو عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب کرنے کے لیے صرف تیرہ ارکان کی حمایت درکار ہے گوکہ قومی اسمبلی کے 342 ارکان کے ایوان میں اپوزیشن کے ارکان کم وبیش 160 ہیں مگران میں بھی کچھ اوپر نیچے ہوسکتے ہیں اس لیے آصف زرداری اور شہباز شریف کم ازکم 25 حکومتی ارکان توڑنے کیلئے کوشاں ہیں۔

بقول اعزاز سید، ایسا نہیں کہ دوسری طرف سب ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے ہیں، فوجی اسٹیبلشمنٹ بھی عمران خان کی طرح سوچ بچار میں ہے۔ ہر دل میں طاقت کیساتھ دیر تک جمے رہنے کی خواہش تو ہوتی ہے مگر ایسا ہونا مشکل سے مشکل تر ہوگیا ہے، تاہم اگر عمران خان نے مقررہ وقت سے پہلے ہی کوئی ہاتھ دکھا دیا تو مسئلہ صرف جونیئر اور متنازع شخص کی تعیناتی سے ہی ہوگا، لیکن اگر اس عہدے پر کسی سینئر بندے کو لگا دیا گیا تو شاید اتنا ردِعمل نہ آئے۔ سنا یہ ہے کہ وزیراعظم کی طرف سے کسی ممکنہ حکم نامے سے ’’نمٹنے‘‘ کیلئے شاہراہ دستور پر انصاف کی عمارت میں بیٹھے قاضی کو بھی ہنگامی صورتحال میں ریلیف دینے کیلئے تیار رہنے کا اشارہ ہے۔

meeting of opposition leadership with non-political official video

Back to top button