فوجی عدالتوں کو 9 مئی کے فیصلے سنانے کی اجازت، پی ٹی آئی کیلئے بڑا دھچکا
سپریم کورٹ آف پاکستان کے آئینی بینچ کی جانب سے 9 مئی 2023 کو فوجی تنصیبات پر حملوں کے 85 ملزمان کو فوجی عدالتوں کی جانب سے سزائیں سنانے کی اجازت دینے کو تحریک انصاف کے لیے ایک بڑا دھچکہ قرار دیا جا رہا ہے کیوں کہ ان تمام ملزمان کا تعلق عمران خان کی جماعت تحریک انصاف سے ہے۔
سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں کو 9 مئی کے واقعات میں ملوث 85 ملزمان کے فیصلے سنانے کی اجازت دیتے ہوئے قرار دیا ہے کہ فوجی عدالتوں کے فیصلے سپریم کورٹ میں زیرالتوا مقدمہ کے فیصلے سے مشروط ہوں گے۔ آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان آئینی کے زیر قیادت بینچ نے حکم دیا ہے کہ جن ملزمان کو سزاؤں میں رعایت مل سکتی ہے انہیں رہا کیا جائے، اور جن ملزمان کو رہا نہیں کیا جا سکتا انہیں سزا سنانے پر جیلوں میں منتقل کیا جائے۔ تمام اس فیصلے کو مجموعی طور پر تحریک انصاف کے لیے ایک جھٹکا قرار دیا جا رہا ہے جس پر 9 مئی 2023 کو ملک بھر میں عمران خان کے ایما پر پر فوجی تنصیبات پر حملوں کی منصوبہ بندی کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے۔
سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید کو ان حملوں کا ماسٹر مائنڈ قرار دیتے ہوئے گرفتار کرنے کے بعد ان کا کورٹ مارشل کیا جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں ان پر فرد جرم بھی عائد کی جا چکی ہے اور انہیں اگلے چند ہفتوں میں سزا بھی سنائے جانے کا امکان ہے۔
سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے سویلینز کے ملٹری کورٹس کیس کی سماعت موسم سرما کی تعطیلات کے بعد تک ملتوی کر دی ہے، آئینی بینچ نے 26 ویں ترمیم کا کیس جنوری کے دوسرے ہفتے میں سننے کا عندیہ دیا ہے۔ سپریم کورٹ کے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے 13 سسمبر کو سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں کے علاوہ دیگر تمام مقدمات کی سماعت مؤخر کر دی، جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ آج صرف فوجی عدالتوں کا مقدمہ ہی سنا جائے گا۔
وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث دلائل کے لیے عدالت کے روبرو پیش ہوئے، جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ پہلے اس نکتے پر دلائل دیں کہ آرمی ایکٹ کی کالعدم دفعات آئین کے مطابق ہیں؟ کیا آرمی ایکٹ میں ترمیم کرکے ہر شخص کو اس کے زمرے میں لایا جا سکتا ہے؟ جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ پہلے بتائیں عدالتی فیصلے میں دفعات کالعدم کرنے کی وجوہات کیا ہیں؟ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اس پہلو کو بھی مدنظر رکھیں کہ آرمی ایکٹ 1973کے آئین سے پہلے بنا تھا۔
وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں خرابیاں ہیں، اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عدالتی فیصلے کو اتنا بے توقیر تو نہ کریں کہ اسے خراب کہیں۔ وکیل خواجہ حارث نے واضح پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’معذرت خواہ ہوں، میرے الفاظ قانونی نوعیت کے نہیں تھے‘۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ’کل بھی کہا تھا کہ 9 مئی کے واقعات کی تفصیلات فراہم کریں، فی الحال تو ہمارے سامنے صرف کورکمانڈر ہاؤس کا ہی معاملہ ہے، اگر کیس صرف کور کمانڈر ہاؤس تک ہی رکھنا ہے تو یہ بھی بتا دیں‘۔
اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ تمام تفصیلات آج صبح ہی موصول ہوئی ہیں جنہیں وہ باضابطہ طور پر متفرق درخواست کی صورت میں جمع کروائیں گے۔
تحریک انصاف کی حکومت سے مذاکرات کی خواہش آگے کیوں نہیں بڑھے گی؟
جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ ’جن دفعات کو کالعدم قرار دیا گیا ہے ان کے تحت ہونے والے ٹرائل کا کیا ہوگا؟ 9 مئی سے پہلے بھی تو کسی کو ان دفعات کے تحت سزا ہوئی ہوگی؟‘ وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ عمومی طور پر کالعدم ہونے سے پہلے متعلقہ دفعات پر ہونے والے فیصلوں کو تحفظ ہوتا ہے، جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ یہ تو اُن ملزمان کے ساتھ تعصب برتنے والی بات ہوگی۔
جسٹس جمال خان مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ آرمی میں کوئی شخص زبردستی نہیں اپنی مرضی سے جاتا ہے، آرمی جوائن کرنے والے کو علم ہوتا ہے کہ اس پر آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوگا، آرمی ایکٹ کے تحت بنیادی حقوق میسر نہیں ہوتے، آرمی ایکٹ بنایا ہی فوج کی ملازمت کے قواعد اور ڈسپلن کے لیے گیا ہے۔ خواجہ حارث نے کہا کہ فوج میں کوئی بھی جرم کی نیت سے نہیں جاتا، بنیادی حقوق جرم کرنے پر ہی ختم ہوتے ہیں۔ جسٹس جمال خان مندو خیل نے استفسار کیا کہ کیا اپیل میں عدالت صرف اپیل کنندہ کی استدعا تک ہی محدود رہے گی؟ کیا عدالت فیصلے کے دیگر پہلو کا بھی جائزہ لے سکتی ہے؟ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے فریقین اپنی معروضات تک محدود رہ سکتے ہیں عدالت نہیں۔
اس دوران جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ’یہ معاملہ سنگین ہے، میں مطمئن ہونا چاہتا ہوں‘۔ خواجہ حارث نے موقف اختیار کیا آرٹیکل 83 اے اگر بنیادی حقوق فراہم نہیں کرتا تو اسے ملٹری کورٹ میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ یہاں بات بنیادی حقوق کی نہیں ہو رہی، سویلینز اور نان سویلینز کی ہو رہی ہے، جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کیا آپ کو سویلینز کورٹ پر اعتماد نہیں ہے؟
جسٹس امین الدین خان نے خواجہ حارث سے استفسار کیا کہ آپ مزید کتنا وقت لیں گے؟ خواجہ حارث نے بتایا کہ ’ابھی دلائل میں مزید کچھ وقت لگ جائے گا‘۔ اس پر جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ موسم سرما کی تعطیلات کے بعد تک کیس ملتوی کر دیتے ہیں، جنوری کے پہلے ہفتے یہ کیس ختم ہوا تو 26ویں ترمیم کا کیس دوسرے ہفتے سنیں گے۔
اس کے بعد آئینی بینچ نے خصوصی فوجی عدالتوں کو تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے 85 ملزمان کے خلاف فیصلے سنانے کی اجازت دے دی اور قرار دیا کہ خصوصی عدالتوں کے فیصلے سپریم کورٹ میں زیرالتوا مقدمے کے فیصلے سے مشروط ہوں گے، یہ بھی کہا گیا کہ جن ملزمان کو سزاؤں میں رعایت مل سکتی ہے وہ دے کر انہیں رہا کیا جائے، جن ملزمان کو رہا نہیں کیا جا سکتا انہیں سزا سنانے پر جیلوں میں منتقل کیا جائے۔ اس موقع پر آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے قرار دیا کہ فوجی عدالتوں سے سزاؤں کے خلاف ہائی کورٹس میں اپیل کا حق انٹرا کورٹ اپیلوں کے فیصلے تک معطل رہے گا۔ سربراہ آئینی بینچ نے واضح کیا ہے کہ ہائی کورٹس میں اپیل کی مدت حتمی فیصلہ کے بعد شروع ہو گی، انہوں نے امید ظاہر کی کہ سویلنز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے مقدمہ جنوری میں مکمل ہوجائے گا۔
جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ اس کیس کے مکمل ہونے پر جنوری کے دوسرے ہفتے میں 26ویں ترمیم کے خلاف درخواستوں کو مقرر کریں گے، ہمارے پاس 26ویں آئینی ترمیم سمیت بہت سے مقدمات پائپ لائن میں ہیں۔ بعد ازاں سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نےکیس کی سماعت جنوری کے پہلے ہفتے تک ملتوی کردی ۔