محسن بیگ نے نئے آرمی چیف کی تعیناتی کا اشارہ دیا تھا

وزیراعظم کے سابقہ ساتھی محسن بیگ نے کہا ہے کہ اگر عمران خان نے مقررہ وقت سے چھ مہینے پہلے نیا آرمی چیف لگانے کی کوشش کی تو انہیں اس مس ایڈونچر کے سنگین نتائج بھگتنا ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کو یہ غلط فہمی ہے کہ وہ ہمیشہ اقتدار میں رہیں گے لیکن اگر جمہوری طریقے سے ان کیخلاف کوئی تحریک آئی تو وہ اس کا سامنا نہیں کر سکیں گے۔ انہوں نے کہا کہ کپتان کی کشتی ڈوبنے والی ہے اور لوگ جانیں بچانے کیلئے چھلانگیں لگا رہے ہیں۔

کامران خان کی طرح عمران خان کی حمایت سے توبہ کرکے ان کے ناقد بن جانے والے محسن بیگ نے نیا دور ٹی وی کے پروگرام ”خبر سے آگے” میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ خان صاحب نے اگر آرمی چیف کے حوالے سے کوئی ایڈونچر کیا تو انہیں اسکے سنگین نتائج بھگتنا ہوں گے۔ انیوں نے کہا کہ نئے آرمی چیف کی تعیناتی نومبر 2022 میں ہوگی لیکن اگر عمران خان نےبچھ ماہ پہلے من مانی کرکے قومی ادارے کو غلط ٹریک پر ڈالنے کی کوشش کی تو انہیں اسکا سخت نقصان ہوگا۔

وزیراعظم کی حالیہ دھمکی کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے محسن بیگ نے کہا کہ اگر عمران خان باہر نکلے تو ان کیلئے حالات بہت مختلف ہونگے۔ ملک کی معیشت کا انہوں نے جو برا حال کر دیا ہے، اس کا خمیازہ عوام ہوشربا مہنگائی کی صورت میں بھگت رہے ہیں اور غصے میں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان چاہتے ہیں کہ وہ ہمیشہ اقتدار میں رہیں لیکن جمہوری طریقے سے ان کیخلاف کوئی تحریک آئی تو وہ اس کا سامنا نہیں کر سکیں گے۔

کپتان مخالف محسن بیگ کی گرفتاری کے وقت کیا کچھ ہوا؟

ان کی کشتی ڈوبنے والی ہے۔ لوگ جانے بچانے کیلئے چھلانگیں لگا رہے ہیں۔ شوکت ترین سمیت دیگر تیار بیٹھے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شوکت ترین کے اپنے بینک کے مسائل ہیں جو سٹیٹ بینک نے حل کرنے تھے لیکن رضا باقر ایسا کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ اس لئے وزیر خزانہ کرونا کا بہانہ کرکے گھر جا کر بیٹھ گئے ہیں۔ آنے والے دنوں میں رضا باقر مزید مضبوط ہونگے۔ مجھے لگتا ہے کہ رضا باقر رہیں گے لیکن شوکت ترین حکومت کی ڈوبتی کشتی سے چھلانگ لگا دیں گے۔

محسن بیگ کا کہنا تھا کہ عمران خان کیخلاف تحریک عدم لائی جانے کے بعد آئندہ کے لائحہ عمل پر بات چیت کا عمل جاری ہے۔ اس صورتحال میں اپوزیشن والے اور خان صاحب دونوں ایک دوسرے سے ڈر رہے ہیں۔ تاہم اس کا رزلٹ ضرور نکلے گا۔ کسی نہ کسی نکتے پر اپوزیشن رضا مند ہو جائے گی۔ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ لوگ پی ٹی آئی چھوڑ کر ن لیگ کیساتھ شامل ہونے کو تیار ہیں لیکن نواز شریف کیلئے مسئلہ یہ ہے کہ وہ اتنے زیادہ لوگوں کو کہاں اور کیسے ایڈجسٹ کریں۔

ایک سوال پر انکا کہنا تھا اگر آج الیکشن ہوں تو ن لیگ سوئپ کر جائے گی۔ اس لئے ہر ایم این اے یا ایم پی اے کی خواہش ہے کہ اسے نواز شریف اپنے ساتھ ملا لیں، کیونکہ پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر جیتنا تو دور کی بات وہ اپنے حلقے کے عوام کا سامنا تک نہیں کر سکتے۔ ان کا کہنا تھا کہ تحریک عدم اعتماد کیلئے اپوزیشن کو پی ٹی آئی کے لوگوں کی ہی ضرورت ہوگی۔ اگر اپوزیشن اکھٹی نہ ہوئی، عمران خان بیٹھے رہے اور نومبر میں تبدیلی لے آئے تو ان کی چیخیں یورپ تک سنی جائیں گی۔

Back to top button