میری کہانی!

تحریر : عطا ء الحق قاسمی

بشکریہ: روزنامہ جنگ

(گزشتہ سے پیوستہ)

میری کہانی کا ایک اور کردار فصیح الدین خالد بھی ہے جسے ہم کبھی خالدی اور کبھی فسی کہتے تھے، یہ بھی اے بلاک میں میرا ہمسایہ تھا اس کے والد ریٹائرڈ کمشنر تھے جو بہت کم ہمارے سامنےآتےتھے خالدی کا کھلتا ہوا سانولا رنگ اس پر بہت کھلتا تھا نہ زیادہ موٹا اور نہ زیادہ اسمارٹ ، قد کاٹھ بھی مناسب تھا اس کی آواز منحنی سی تھی گھر میں ایک ملازم اور ایک بہت پرانی وضع کی خالہ رہتی تھیںجو روایتی سفید برقعے میں گھر سے باہر نکلتی تھیں۔خالدی کتابوں کا کیڑا تھا ہر قسم کی کتاب پڑھتا تھا چنانچہ ہر موضوع پر گفتگو کر سکتا تھا ۔وہ ایک عجیب کردار تھا جب پڑھنے کا دورہ پڑتا تو سوائے کتابوں کے وہ کسی اور طرف توجہ نہیں دیتا تھا۔اگر لائٹ نہیں ہے تو موم بتی کی روشنی میں وہ مطالعے کا سلسلہ جاری رکھتا چنانچہ میں جب کبھی اس سے کوئی کتاب مستعار لیتا تو ان میں سے کچھ پر موم بتی کی موم جمی ہوتی اسی طرح اگر اسے کبھی پینٹنگ کا شوق چڑھتا تو پھر صبح شام پیٹنگ میں مشغول رہتا۔ایک دن میں اس کی طرف گیا بیل دینے پر دروازہ کھلا تو اس کے چہرے پر بیگانگی کے آثار نظر آئے۔اندر داخل ہوا تو گھپ اندھیرا اور سب لائٹیں آف تھیں کھڑکیوں کے پردے تبدیل کرکے اس نے سیاہ رنگ کے پردے لگائے ہوئے تھے دیواروں پر بہت ہیبت ناک قسم کی پینٹنگز آویزاں تھیں۔میں نے خالدی کی طرف دیکھا تو اس کے چہرے پر عجیب طرح کی وحشت تھی۔میں نے اسی آسیب زدہ ماحول میں خوفزدہ آواز میں خالدی سے جو ایک پینٹنگ بنانے میں مشغول تھا پوچھا ،یہ کیا بنا رہے ہو؟ اس نے میری طرف دیکھا اس کی آنکھوں میں بیگانگی نہیں شدید قسم کی بے رحمی نظر آ رہی تھی۔مجھے اس کی آواز کہیں بہت دور سے آتی سنائی دی ’’موت کی تصویر کشی کر رہا ہوں‘‘ پہلے وہ چائے منگوانے کے لئے اپنی منحنی سی آواز میں اپنے ملازم کو آواز دیا کرتا تھا’’خان‘‘ اور خان چائے لے کر آ جاتا لیکن اس روز وہ خود اٹھ کر گیا اور واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں خنجر تھا اور اس نے میری خوفزدہ آنکھوں سے اپنی ویران آنکھیں ملاتے ہوئے اور خنجر کو لہراتے ہوئے پوچھا ’’یہ کیا ہے‘‘ میں نے لرزتی آواز میں کہا مجھے پتہ ہے یہ کیا ہے اور ساتھ ہی صوفوں سے ٹکراتا کھڑکی سے متقا لگاتا وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا اگلے دن خالدی سے ملاقات ہوئی تو وہ وہی دلربا خالدی تھا جس کی شگفتہ بیانی اور بے پناہ اپنائیت اجنبیوں کا دل بھی موہ لیا کرتی تھی۔

میں نے خالدی سے زیادہ خوش بیان اور ہر موضوع پر یکساں گرفت والا شخص نہ اس کو زندگی میں اور نہ آج تک دیکھا۔وہ زندگی کے کسی بھی شعبے سے وابستہ فرد سے بات کرتا تو لگتا یہ خود اس شعبے سے وابستہ ہے۔ لڑکیاں اس پر فدا ہو جاتی تھیں یہ منظر میں نے پاکستان میں بھی دیکھا اور امریکہ میں بھی لڑکیوں کو اس پر صدقے واری ہوتے پایا ،گفتگو کے دوران اس کی دبی دبی ہنسی بھی سنائی دیتی اور بہت سوں کیلئے جان لیوا ثابت ہوتی۔ جب یہ میرے سب دوست سوائے میرے اور مسعود کے امریکہ جا چکے تھے تو ابا جی کی بے پناہ محبت نے صرف میری خوشی کی خاطر یہ جدائی برداشت کرلی اور امریکہ جانے کی اجازت دے دی۔مجھے وہاں لمز ریستوران میں نائٹ منیجر کی جاب ملی ایک رات میں نے دیکھا کہ سب گاہک جا چکے ہیں صرف جینی اکیلی بیٹھی ہے اب ریستوران کلوز کرنے کا وقت تھا وہ میرے پاس آئی اور کہا ’’مجھے گھر تک لفٹ دے دو گے؟‘‘ یہ کونسی بڑی بات تھی وہ میرے ساتھ کار میں بیٹھ گئی جینی سے میرا تعارف خالدی کی وساطت سے ہوا تھا وہ خالدی پر بہت بری طرح فدا تھی مگر خالدی اس کی طرف مائل نہ تھا ۔ میں نے اس کے گھر کے سامنے گاڑی کو بریک لگائی مگر اس نے اترنے کی بجائے مجھے کہا ’’سارے دن کے تھکے ہوئے ہو کچھ دیر بیٹھ کر چلے جانا‘‘ سو میں اس کے ساتھ اس کے سیٹنگ روم میں چلا گیا اس نے کہا تم بیٹھو میں ’’چینج کرکے آتی ہوں‘‘ کچھ دیر بعد آئی تو وہ نیم برہنہ تھی اس کے ہاتھوں میں دو گلاس تھے ایک اس نے مجھے دیا مگر میں نے کہا سوری میں نہیں پیتا۔وہ میرے ساتھ جڑ کر بیٹھ گئی اور کہتی جاتی تھی میں خالدی کے بغیر نہیں رہ سکتی میں اس سے اتنی محبت کرتی ہوں کہ دنیا میں کوئی کسی سے نہیں کرتا ہو گا یہ کہتے ہوئے اس نے میرا ہاتھ اپنے سینے پر رکھ دیا اور کہا دیکھو خالدی کا نام لینے سے میرے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی ہے۔ یہ صورتحال دیکھ کر میں اٹھا اور واپس کار میں بیٹھ کر اپنے گھر کو چل دیا کیونکہ میرے دل کی دھڑکن اس کے دل کی دھڑکن سے بھی تیز ہو گئی تھی ۔اس روز مجھے اندازہ ہوا کہ دنیا بھر کی لڑکیاں اپنی ناکام محبت کا انتقام ایک ہی طریقے سے لیتی ہیں۔

میری کہانی!

 

خالدی سمیت میرے سارے دوست سوائے عارف اور منیر کے دونوں تبلیغی تھےتشکیک کا شکار تھے میرے گھر دینی لٹریچر کی بہتات تھی مگر جتنا پڑھتا تھا اتنا ہی میرے ذہن میں مزید سوالا ت جنم لینے لگتے تھے میں نے ابا جی سے کہا ابا جی میرے سارے دوست کہہ رہے ہیں، اپنا ذکر گول کرتے ہوئے، ان سے گزارش کی، کہ کسی مناظرے باز عالم سے ان کی ملاقات کرائی جائے سو ایسا ہی ہوا سب نے کھل کر سوال کئے خالدی کے سوال سب سے زیادہ تندوتیز تھے مناظر نے سب کی تسکین اپنی استطاعت کے مطابق کی اور آخر میں انہیں مخاطب کرکے کہا حضرت ہمارے سارے شکوک دور ہو گئے ہیں مگر ایسا نہیں تھا۔(جاری ہے)

Back to top button