میری کہانی!

تحریر : عطا ء الحق قاسمی

بشکریہ: روزنامہ جنگ

(گزشتہ سے پیوستہ)

اور ہاں مسعود علی خان کو نفسیات کے مضمون سے بہت دلچسپی تھی اور ابھی تک ہے ۔ اس کی وجہ سے مجھے بھی اس سبجیکٹ سے دلچسپی پیدا ہوگئی اور ابھی تک ہے، اس دلچسپی کے طفیل مجھے اپنی ذات میں جھانکنے کا موقع ملا۔ مجھے اپنی زندگی میں جو کوئی کمی محسوس ہوتی تھی میں مسعود سے ڈسکس کرتاتھا اور پھر شانت ہو جاتا تھا۔ آج بھی میں جب کبھی اس قسم کی صورت حال سے دو چار ہوتا ہوں مسعود سے رجوع کرتا ہوں اور اس لحاظ سے وہ میرا عزیز دوست ہی نہیں میرا دوست بھی ہے۔

ابھی تک میں نے اپنے بورژوا دوستوں کا ذکر کیا ہے میرے دو پرولتاری دوست بھی تھے، تیسرا میں خود تھا، ان پرولتاری دوستو ں میں ایک تو نذیر قیصر اور دوسرا سعید تھا، نذیر قیصر اور سعید دونوں میرے گھر سے واکنگ ڈسٹینس پر رہتے تھے۔ نذیر قیصر اور میں سڑکیں ماپتے رہتے تھے اس دوران وہ کچھ گنگناتا رہتا،بعد میں پتہ چلا کہ دو مصرعے تھے جنہیں وہ جوڑنے میں لگا رہتا ،وہ اس وقت بھی بہت عمدہ شاعر تھا لیکن وہ مجھے اپنی شاعری نہیں بلکہ اساتذہ کی شاعری میں سے منتخب اشعار سنایا کرتا تھا، اس کے علاوہ وہ اس دور کے نمایاں شعراء کے دلچسپ واقعات سنایا کرتا۔ میں اس زمانے میں گاہے گاہے کالم لکھنا شروع ہوگیا تھا۔ ایک دفعہ اس کی وجہ سے میں نے بابا ظہیر کاشمیری کے خلاف کالم لکھ ڈالا۔ بہرحال مجھے یہ اعتراف کرتے ہوئے مسرت محسوس ہوتی ہے کہ مجھے شعر و ادب کی طرف راغب کرنے والا یہی نذیر قیصر تھا، اس دور میں، میں نے اور نذیر قیصر نے ایک دلچسپ مشاعرے میں شرکت کی۔ ہم پاک ٹی ہائوس میں بیٹھے تھے کہ پتہ چلا جلال پور جٹاں میں ایک مشاعرہ ہو رہا ہے، شاعروں کو لے جانے کے لئے بس باہر کھڑی تھی اور صلائے عام تھی یارانِ نکتہ داں کے لئے۔ یعنی جو شاعر مشاعرہ پڑھنا چاہے وہ بس میں بیٹھ جائے، سو میں اور نذیر قیصر بھی بس میں سوار ہوگئے۔ بس میں بیٹھے مشاعرے کے منتظم نے بتایا کہ آپ لوگوں کے لئے جلال پور جٹاں میں قیام و طعام کا معقول بندوبست ہے، چنانچہ بس روانہ ہوئی اور جلال پور جٹاں میں ہمارے معقول قیام کا جہاں انتظام کیا گیا ، بس اس سےدور جا کر کھڑی ہوگئی۔ اس عمارت کے باہر جلی حروف میں لکھا تھا ’’یتیم خانہ جلال پور جٹاں‘‘ سو اس یتیم خانے میں ہمیں ٹھہرایاگیا۔ زمین پر بستر بچھا دیئے گئے اور شعرا سے کہا گیا کہ ابھی کھانا آ رہا ہے۔ آپ طعام کے بعد آرام کریں، مشاعرہ صبح ہوگا۔ کچھ دیر بعد کچھ یتیم بچے تھال میں چنوں والے چاول لے کر آئے اور ہم سب اس تھال کے گرد بیٹھ گئے اور ایک ایک لقمے سے طعام کیا۔مشاعرے کا منتظم تھوڑی تھوڑی دیر بعد آتا اور کہتا تکلف سے کام نہ لیں دل کھول کر کھائیں۔ چنانچہ ایک بڑا تھال جو چاولوں سے بھرا تھا ہم پیٹو شاعروں نے چشم زدن میں خالی کردیا اور پھر ایک دوسرے کی شکل دیکھنے لگے۔ اب رات ہو چکی تھی۔ شاعروں میں ایک داماداور اس کا سسر بھی موجود تھے۔ داماد صاحب نے اپنی بیاض کھولی اور خوف خدا سے بے نیاز اپنا بے سرا کلام سر میں سنانے میں مشغول ہوگیا، جب ہمارا صبر جواب دے گیا تو ہم میں سے ایک نے اٹھ کر لائٹ آف کر دی۔ اس پر داماد نے مجبوراً اپنی بیاض بند کردی، مگر ان کے سسر کو اپنا سارا کلام زبانی یاد تھا، ہم اس دوران سو گئے، درمیان میں جب کسی کی آنکھ کھلتی تو وہ دیکھتا کہ سسر صاحب اپنا کلام بلاغت نظام سنانے میں مشغول ہیں۔

خیر ہر شب کی ایک سحر تو ہو جاتی ہے، صبح ہوئی تو ہم شاعروں کو ایک پرائمری اسکول میں لے جایا گیا وہاں ننھے منے یتیم بچے ہمارے سامعین تھے جو فرش پربیٹھے تھے۔ان کے پیچھے دس بارہ نوجوان لاٹھیاں ہاتھوں میں لئے کھڑے تھے، ایک بزرگ ایک چھڑی میں پھولوں کے ہار لئے کھڑے تھےاور وہ ہر شاعر کی آمد پر نعرے ہائے تکبیر اور نعرہ ہائے رسالت کے بعد اسے کلام سنانے کی اجازت دیتے۔ یہ میری زندگی کا پہلا مشاعرہ تھا۔ میں جب مائیک پر آ کر شعر سنانے لگا تو بزرگ نے ایک ہاتھ سے مجھے پرے دھکیلا اور نعرہ تکبیر اور نعرہ رسالت کے بعد پھولوں کا ہار میرے گلے میں ڈالا اور ہاتھ سے اشارہ کیا کہ شروع ہو جائو، جیسا کہ میں نے ابھی بتایا کہ یہ میری زندگی کا پہلا مشاعرہ تھا چنانچہ میں اتنا نروس ہوا کہ میں نے ترنم سے اپنا کلام سنانا شروع کردیا۔ہر مصرعے کی لِےدوسرے مصرعے سے مختلف تھی، مجھے اس روز اپنے شاعر دوست بہت زہر لگے وہ میرے کلام کے دوران مسلسل ہنستے رہے۔ بات نذیر قیصر سے شروع ہوئی تھی اور اس پر ختم کرتا ہوں کہ مجھے شاعری کے اسرار و رموز اسی نے سکھائے۔ پھر ایک وقت آیا کہ ہم ایک دوسر ےسے بہت دور ہوگئے، کیوں اور کیسے دور ہوئے مجھے کچھ یاد نہیں، مجھے اچھے دوستوں کی طرف اچھی باتیں یاد رہتی ہیں، وہ میں نے بیان کردی ہیں۔ کسی دن ذہن پر زور دے کر یاد کروں گا کہ ہم ایک دوسرے سے کیوں دور ہوئے۔ پرولتاری دوستوں میں دوسرا دوست سعید تھا، ماڈل ٹائون سوسائٹی نے اپنے ملازمین کےلئے چھوٹے چھوٹے گھر بنائے ہوئے تھے، سعید کے والد سوسائٹی کے ملازم تھے، سو سعید انہیں الاٹ شدہ گھر میں رہتا تھا۔ اس کا رنگ سانولا تھا اور نقش بہت اچھے تھے۔ بہت ہنس مکھ اور کھلنڈرا، میں جب اس سے ملتا تو بھول جاتا کہ میں ماڈل ٹائون میں رہتا ہوں، بس یہی لگتاکہ میں وزیر آباد کے گلہ بکریاں والاکوچہ میر چونیاں میں رہتا ہوں، چنانچہ اس کے ساتھ میری گفتگو اور مشغولات بہت فطری نوعیت کے ہوتے تھے۔

بیانیوں کی جنگ اور ’’باسی خبریں‘‘

دریں اثنا وہ روزی کمانے کے لئے بیرون ملک چلا گیا ، واپس آیا تو ویسے کا ویسا ہی تھا۔ میری اس کی ملاقاتیں اکثر ہوتی تھیں اور ہر قسم کی واہیات حرکات بھی مشترکہ ہوتی تھیں۔ میں آج بھی بغیر کسی کام کے ماڈل ٹائون کی خوبصورتیاں اپنی آنکھوں میں سمیٹے چلا جاتا ہوں۔ میں نے سب سے اپنا تعلق کبھی کمزور نہیں ہونے دیا۔ ناروے اور تھائی لینڈ میں سفارت کے دوران، پی ٹی وی، الحمرا آرٹس کونسل کی چیئرمین شپ کے دوران وہ مجھے کبھی نہیں بھولا۔ وہ مجھے آج بھی اتنا ہی عزیز ہے جتنا کوئی سچا دوست ہونا چاہیے۔

Back to top button