میری کہانی!
تحریر:عطا الحق قاسمی۔۔۔۔بشکریہ:روزنامہ جنگ
(گزشتہ سے پیوستہ)
ہمارے دفتر میں حاجی صالح محمد صدیق بھی تھے مگر وہ حاجی نہیں تھے جس طرح ہمارے حافظ عزیر احمد حافظ نہیں ہیں۔ حاجی صاحب باریش تھے مگر اس ریش نے ا ن کی زندہ دلی میں کوئی کمی نہیں آنے دی تھی۔ اکائونٹ سیکشن سے ہم سب کو اکثر کام ہوتا تھا وہاں ہمارا واسطہ پال صاحب، چوہدری حاکم علی اور نقوی صاحب سے پڑتا تھا۔ اللہ معاف کرے نقوی صاحب کا چہرہ لقوے کی وجہ سے قدرے ٹیڑھا ہو چکا تھا ایک دفعہ حاجی صاحب کیش کے سلسلے میں ان کے پاس گئے انہوں نے بددماغی سے جواب دیا تو حاجی صاحب نے کہا ’’نقوی صاحب کبھی تو سیدھے منہ بات کرلیا کریں‘‘ اورجہاں تک پال صاحب کا تعلق تھا ان کے در سے ہر سوالی خالی ہاتھ لوٹا مگر وہ بہت محبت اور ملائمت سے بات کرتے تھے۔ ایک دفعہ حاجی صالح محمدصدیق اپنی تنخواہ لینے ان کے پاس گئے، پال صاحب نے بہت پیار بھرے انداز میں نہ صرف معذرت کی بلکہ اپنی میز کی وہ دراز کھول کر دکھا دی جس میں پیسے نہیں ہوتے تھے۔ کیش اس سے نچلی دراز میں ہوتا تھا۔ حاجی صاحب بھی اس دراز سے باخبر تھے، وہ اصرار کرتے رہے اور کہتے رہے پال صاحب کچھ تو کریں۔ اس پر پال صاحب نے کہا حاجی صاحب پیسے آپ سے اچھے ہیں مگر وہ نہیں ہیں۔ اس کے متبادل ا نہوں نے جو پیشکش کی اس پر عمل ڈھلتی عمر کے سبب دونوں کیلئے ممکن نہیں تھی۔
جہاں تک چوہدری حاکم علی کا تعلق ہے وہ خاصے خوش ذوق اور خوش باش تھے ۔ جو واقعہ میں بیان کرنے لگا ہوں وہ کافی عرصہ قبل اپنے کالم میں لکھ چکا ہوں اور یہ کالم بہت مقبول ہوا تھا مگر آج میں اس کا خلاصہ بیان کرنے کے بعد ایک ایسا انکشاف بھی کروں گا کہ آپ سب دنگ رہ جائیں گے۔کسی زمانے میں میرے پاس ویسپا اسکوٹر تھا وہ چوری ہوگیا، میں نے ایک طنز و مزاح سے بھرپور کالم ’’محترم چور صاحب‘‘ کے عنوان سے لکھا جس میں اس سے گزارش کی گئی تھی کہ میں نے ابھی اس کی پوری قسطیں بھی ادا نہیں کیں، خدا ترسی سے کام لے کر میرا اسکوٹر واپس کردو۔یہ اتنا دلچسپ کالم تھا کہ اسے بنیاد بنا کر انتظار حسین، ابن انشا، عبدالقادر حسن کے علاوہ پیپلز پارٹی کے ترجمان اخبار مساوات میں برادرم سہیل نے بھی کالم لکھا۔ اسکوٹر مجھے واپس مل گیا، میں نے اس پر ایک اور کالم لکھا’’چور صاحب کا شکریہ‘‘ اور اس میں یہ سوال اٹھایا کہ چورکس کالم سے اتنا متاثر ہوا کہ چوری کا مال واپس کرگیا، ساتھ ہی میں نے یہ جملہ کہا کہ میرے خیال میں چور نے ’’مساوات‘‘ میں سہیل کا کالم پڑھا اور پارٹی کا حکم سمجھ کر اسکوٹر واپس چھوڑ گیا۔ اب یہ پیرا پڑھنے کیلئے ذہنی طور پر تیار ہو جائیں۔ ان دنوں مستنصر حسین تارڑ کے ساتھ میری بڑی دوستی تھی، گوالمنڈی میں اس کی بیجوں کی دکان تھی اور میں اکثر وہاں جاتا اور ہم بہت دیر تک گپ شپ کرتے۔ ایک دن اس نے مجھے فون کرکے بلایا میںگیا تو وہاں ادھیڑ عمر کا ایک شخص کھڑا تھا جس کی شیو بڑھی ہوئی تھی۔ تارڑ نے اسے مخاطب کیا اور کہا ’’قاسمی صاحب کا اسکوٹر واپس کردو‘‘ اور پھر مجھے کہا اسے کچھ پیسے بھی دے دینا، اس نے مجھے اپنے پیچھے آنے کے لئے کہا اور گلی در گلی سے ہوتا ہوا ایک مکان کا تالا کھولا جو موٹر سائیکلوں اور اسکوٹروں سے اٹا پڑا تھا۔ میں نے اپنا اسکوٹر پہچانا اور اسے ساتھ لے جانے سے پہلے چور صاحب کو ان کی مطلوبہ رقم بھی ادا کردی۔
اب چوہدری حاکم علی کی بذلہ سنجی ملاحظہ کریں، اگلے ماہ جب میں اپنی تنخواہ وصول کرنے ان کے پاس گیا تومیں نے دیکھا کہ وہ کچھ جمع تفریق میں لگ گئے ہیں۔ کچھ دیر بعد انہوں نے ہزاروں کا بل میرے سامنے رکھ دیا اور کہا آپ نے اپنے اسکوٹر کے حوالے سے جو دو کالم لکھے وہ اشتہار کی ذیل میں آتے تھے ہم نے اشتہاروں کا رعایتی ریٹ لگایا ہے۔ آپ اپنی تنخواہ اس میںسے منہا کرکے باقی رقم ادا کردیں۔ظاہر ہے وہ اس حوالے سے سیریس نہ تھے، خوش مذاقی کا مظاہرہ کر رہے تھے۔
نوائے وقت لاہور میں ایک ’’کمال‘‘ کے کردار تھے۔ ان کا نام حمید اصغر نجیب تھا۔وہ ایک دن برادرم ارشاد عارف جو نوائے وقت کے ڈپٹی ایڈیٹر تھے کے پاس گئے اور کہا آپ کو تفصیل بتانے کی ضرورت نہیں، آپ سے زیادہ کون جانتا ہے کہ سیاسی بصیرت کے حامل اس دفتر میں صرف دو افراد ہیں ایک آپ اور ایک میں۔ ارشاد عارف نے کہا آپ مجھے کیوں کانٹوں میں گھسیٹ رہے ہیں، میں آپ کا ایک ادنیٰ سا طالب علم ہوں آپ بس حکم کریں کہ آج یہ شرف ملاقات کس سلسلے میں بخشا ہے۔ اس پر وہ حرف مدعا زبان پر لائے کہ سینٹ میں صاحب علم لوگ ہونے چاہئیں۔آپ سے گزارش ہے کہ آپ فاروق لغاری صاحب سے بات کرکے مجھے سینیٹر بنوا دیں۔ ارشاد عارف بظاہر سنجیدہ نظر آتے ہیںمگر کوئی شخص خود تیر کے آگے کھڑا ہو جائے تو اس کا علاج ارشاد عارف کے پاس بھی نہیں ہوتا چنانچہ انہوں نے بہت سنجیدگی سے کہا کہ آپ ابھی راولپنڈی کی بس پکڑیں اور وہاں نوائے وقت کے دفتر پہنچ کر توصیف احمد خاں سے مل لیں بہت اثر و رسوخ کے حامل ہیں، نوائے وقت کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر ہونے کے علاوہ وہ سوشل بھی ہیں ان کا سیاست دانوں سے ملنا جلنا رہتا ہے بلکہ سیاست دان گاہے گاہے خود انہیں صالح مشورے کے لئے بلاتے ہیں۔ یہ سن کر حمید اختر نجیب صاحب سلام دعالئے بغیر سیڑھیوں کی طرف بھاگے اور اس ذہنی کیفیت کے باوجود بخیر و عافیت راولپنڈی پہنچ کر توصیف احمد خان کے دفتر پہنچ گئے اور بغیر وقت ضائع کئے مدعا زبان پر لے آئے اس ستم ظریف نے کہا نجیب صاحب میں اتنے جوگا کہاں، میں تو ایسے کاموں کیلئے خود ارشاد عارف سے رجوع کرتا ہوں۔ آپ ابھی واپس لاہور جائیں وقت بہت کم ہے۔ میں بھی عارف کو فون کردیتا ہوں۔
یہ داستان بہت لمبی ہےتاہم اس کا کلائمیکس یہ ہے کہ جنرل مشرف کے زمانے میں یہ حضرت وزیر اطلاعات بننے کی خواہش لئے’’بھا‘‘ طارق اسماعیل اور خالد کاشمیری کی طرف سے گارنٹی دینے کے بعد پرامید ہوگئے۔ اللہ خالد کاشمیری اور ’’بھا‘‘ اسماعیل کی ان ’’دوستانہ‘‘ سرگرمیوں کے حوالے سے یقیناً سرگرم عمل ہوا ہوگا۔ (جاری ہے)