میری کہانی!
تحریر : عطا ء الحق قاسمی
بشکریہ: روزنامہ جنگ
(گزشتہ سے پیوستہ)
قیوم نظامی تعلیم سے فراغت کے بعد بلکہ دوران تعلیم ہی پاکستان کی سیاست میں بھرپور حصہ لیتے رہے، جب جنرل ایوب خان نے مارشل لا لگایا اسکے خلاف جلسے جلوسوں میں ہم دونوں شامل رہے، جب ذوالفقار علی بھٹو کو وزیر خارجہ بنایا گیا تو ترقی پسند نوجوانوں کے دلوں میں انکی جگہ بننا شروع ہوئی اور جب بھٹو نے وزارت خارجہ چھوڑ کر ایو ب خان کیخلاف تحریک کا آغاز کیا تو مجید نظامی نے ڈاکٹر مبشر حسن کے ذریعے بھٹو کو یوم حمید نظامی کی صدارت کی دعوت دی، مجھے اچھی طرح یاد ہے یوم حمید نظامی کا یہ جلسہ لاہور کے وائی ایم سی اے ہال میں ہوا، سامعین زیادہ تھے اور ہال چھوٹا تھا۔ اس وقت بھٹو کی مقبولیت میں اضافہ ہو چکا تھا، اس جلسے میں، میں اور قیوم نظامی بھی موجودتھے۔جلسے کے اختتام پر سب لوگ بھٹو سے ہاتھ ملانے کی کوشش کر رہے تھے، قیوم نظامی اپنی اس کوشش میں کامیاب ہوگیا جبکہ میں جو بھٹو صاحب کے بالکل پیچھے تھا صرف ان کے سر پر ہاتھ پھیر سکا۔ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا کے دوران قیوم نظامی پھر میدان عمل میں آگیا میں نے صرف لفظوں کو اپنا ہتھیار بنایا چنانچہ انہی دنوں میرا ایک کالم ’’وقت کا ضیاع‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا اس طرح ایک اور کالم میں جنرل کے ایک ذکر خیر میں ان کی کہہ مکرنیوں کے حوالے سے کسی شاعر کا یہ شعر لکھ دیا۔؎
شیخ سجدے میں سر جھکاتا ہے
حور جنت میں کانپ جاتی ہے
جہاں تک قیوم نظام کا تعلق ہے وہ پی پی پی کا سرکردہ لیڈر بن چکا تھا اسے دس کوڑے بھی مارے گئے اور وہ ہر کوڑے پر اللہ اکبر کہتا رہا، آخری کوڑے پر جب وہ لہولہان ہو چکا تھا اس نے ’’جیوے بھٹو‘‘ کا نعرہ بھی لگایا۔ ایک وقت آیا کہ اسے جلا وطنی اختیار کرنا پڑی۔ آج کل اس نے اپنی پارٹی بنائی ہوئی ہے مگر یہ اس پارٹی کا لیڈر بھی خود ہے اور عوام بھی خود ہی۔ میرے دو کلاس فیلوز ماہرین اقبالیات رفیع الدین ہاشمی اور عبدالغنی فاروق اس سال 2024ء میں آگے پیچھے اللہ کوپیارے ہوگئے۔ اب دوبارہ واپس اورنٹیئل کالج آتے ہیں جیسا کہ پہلے بتا چکا ہوں یونیورسٹی میگزین ’’محور‘‘ کی ادارت کی ذمہ داری مجھے سونپی گئی تھی ایک دن میں کالج کی سیڑھیاں اتر رہا تھا میرے آگے میری دو کلاس فیلوز جو حجاب میں تھیں مجھے آتا دیکھ کر رک گئیں۔ ان میں سے ایک نے کہا قاسمی صاحب ’’محور‘‘ لیٹ نہیں ہوگیا، میں نے کہا ہاں ایسے ہی ہے، مگر پروف ریڈنگ پر بہت وقت صرف ہو رہا ہے۔ اس پر مجھے یہ پیشکش ہوئی کہ وہ دونوں پروف ریڈنگ میں میرا ہاتھ بٹا سکتی ہیں۔ میں نے کہا، میں یہ کام یونیورسٹی لائبریری میں کیا کرتا ہوں، آپ بھی کل سے وہاں آ جایا کریں اگلے روز وہ دونوں مجھ سے پہلے وہاں موجود تھیں۔ پروف ریڈنگ کے مرحلے کا آغاز ہوا جو صرف بیس منٹ تک جاری رہا اور ایسا کئی روز ہوا۔ان میں سے ایک نے آنا جاری رکھا، دوسری کلاس فیلو کو ہم دونوں کی گفتگو کے دوران خاموش بیٹھے رہنا وقت کا ضیاع محسوس ہواچنانچہ اس نے پروف ریڈنگ سے کنارہ کشی اختیار کرلی مگر دوسری کلاس فیلو کا ’’محور‘‘ میں انٹرسٹ اتنا زیادہ تھا کہ جب ہم تھک جاتے اور چائے کی تلاش میں نکلتے تو اس وقت بھی وہ اپنے ’’محور‘‘ کے بارے میںسوچ رہی ہوتی۔ پھر یوں ہوا کہ محور شائع ہوگیا ہم دونوں محور سے فارغ ہوگئے۔ چار سال بعد انیس سو ستتر آگیا اور میں امریکا چلا گیا۔ مگر میںاسے بھول نہیں پایا کہ بطور دوست وہ بہت اچھی تھی، خوبصورت بھی اور خوب سیرت بھی، قلم و ادب سے گہرا شغف رکھتی تھی اور ہم دونوں میں یہی ایک قدر مشترک تھی۔ ظاہر ہے اب تک اس کی شادی ہوگئی ہوگی وہ میرے بارے میں جانتی ہوگی مگر مجھے کچھ علم نہیں کہ وہ کہاں ہے، وہ یہاں ہے یا وہاں ہے میں اس کیلئے دعا گو ہوں۔امریکا سے واپسی پر بہنوں نے کہا اب شادی کرلو میں نے پوچھا کس سے انہوں نے کہا اپنی مرضی سے جہاں چاہو بس تم ایک دفعہ ہاں کہہ دو میں نے ہاں کہہ دی۔ اس کے بعد ہمیں رشتے کیلئے زیادہ تگ و دو نہ کرنا پڑی۔ ہمارے امرتسر کے ایک نہایت معزز گھرانے کی خاتون ہماری طرف آئیں اور میرے ابا جی سے کہا پیر جی (امرتسر کے لوگ ابا جی کو پیر جی بھی کہتے تھے) لڑکی والے کبھی خود رشتہ نہیں مانگتے، مگر ہم دونوں گھرانے ایک دوسرے کو جانتے ہیں آپ شہزادے کا ہاتھ میرے ہاتھ میں دے دیں لڑکی کنیئرڈ کالج میں پڑھتی تھی اور کالج خود کار ڈرائیو کرکے جاتی تھی اس کے والد ایک بہت بڑی کمپنی جس کی شاخیں ملک کے دونوں حصوں میں پھیلی ہوئیں تھیں، کے سربراہ تھے۔ بہنوں نے مجھ سے بات کی، میںنے کہا سماجی تفاوت بہت زیاد ہ ہے اور مجھے یہ اچھا نہیںلگتا۔ آپ میرے لئے کوئی ایسا رشتہ تلاش کریں جو سماجی طور پر ہمارا ہم پلہ ہو۔ میری انا آڑے آگئی اور میں نے رشتے سے انکار کردیا۔
میری کہانی!
واضح رہے اس وقت تک بطور کالم نگار اور بطورسفر نامہ نگار میری پوزیشن بہت مستحکم ہو چکی تھی پہلے میں نوائے وقت میں فری لانسر کے طور پر لکھتا تھا مگر اب میں باقاعدہ ادارے کا رکن بن چکا تھا بطور سب ایڈیٹر میری تنخواہ تین سو تئیس روپے ماہوار طے ہوئی تھی اور کالج کی لیکچرر شپ بھی برقرار تھی، ہمارے گھر والوں کی ایک شرط یہ تھی لڑکی کشمیری خاندان کی ہونی چاہیے اور میری شرط یہ تھی کہ لڑکی خوبصورت ہو، تعلیم یافتہ ہو اور تعلیم یافتہ کی وضاحت میں نے کر دی تھی اس کا ڈگری ہولڈر ہونا ضروری نہیں بلکہ وہ بول ،چال ڈھال سے پڑھی لکھی لگتی ہو۔ سو میرے گھر والوں نے رشتہ ڈھونڈ نکالا۔لڑکی نےبی ایس سی گورڈن کالج راولپنڈی اور ایم ایس سی گورنمنٹ کالج لاہور سے کی تھی۔وہ اُس وقت لاہور کے ایک انگریزی اسکول میں پڑھا رہی تھی میں نے ایک دفعہ اسکول جاتے ہوئے اس کی جھلک دیکھ لی تھی وہ خوش شکل تھی اور یوں میری ایک شرط پوری ہوگئی تھی۔ اب ہماری شادی کی 52ویں سالگرہ 9اپریل کو ہے اللہ نے ہماری جھولی یاسر پیرزادہ، عمر قاسمی اور علی عثمان قاسمی ایسے ہیروں سے بھر دی ، شادی کے ان 52 برسوں میں ہر شادی شدہ جوڑے کی طرح اتار چڑھائو آتا رہا مگر اب ہم دونوں میاں بیوی سے زیادہ ایک دوسرے کے دوست لگتے ہیں اور بہت خوش ہیں ہم دونوں کا تعلق سفید پوش گھرانےسے تھا مگر اللہ نے ہمیں وہ سب کچھ دیا جو مڈل کلاس کے گھرانوں کا مقدر ہے میری بارات میں مجید نظامی، شہباز شریف، آغا شورش کاشمیری اور ڈاکٹر تبسم کاشمیری کے علاوہ ملک کی دیگر نامور شخصیات شامل تھیں۔ (جاری ہے)