میری کہانی!

تحریر : عطا ء الحق قاسمی

بشکریہ: روزنامہ جنگ

(گزشتہ سے پیوستہ)

اس دوران میں آدھا ایم اے کر چکا تھا یعنی تنقید کے پرچے میں فیل ہو گیا تھا۔ تنقید ہمیں پروفیسر سجاد باقر رضوی پڑھایا کرتے تھے۔جنہوں نے انگریزی میں ایم اے کیا ہوا تھا مگر پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج میں ملازمت کی شرط پوری کرنے کیلئے انہیں ایم اے اردو کا امتحان دینا پڑا۔ رزلٹ آیا تو وہ بھی تنقید کے پرچے میں فیل تھے۔ میں نے پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج کا ذکر کیا تو یہ کوئی عام درس گاہ نہیں تھی برصغیر پاک وہند میں آج بھی اس کالج کے علمی مرتبےکا اعتراف کیا جاتا ہےیہاں اردو، فارسی اور عربی میں ایم اے کی کلاسیں ہوتی تھیں اسکی عمارت کی بھی تاریخی حیثیت تھی قیام پاکستان سے قبل یہ تعمیر کی گئی تھی البتہ ایم اے اردو کی کلاسیں پاکستان بننے کے بعد شروع ہوئیں۔ عمارت کی قدامت میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی تھی ۔کالج کی دوسری منزل میں کلاسز ہوتی تھیںلان میں برگد کا پرانا درخت اپنے دامن میں بہت سی کہانیاں لئے ہوئے تھا یہ عمارت لاکالج کے پچھواڑے واقع تھی ہمارے کالج میں لڑکیاں زیادہ اور لڑکے کم تھے چنانچہ لا کالج کے لڑکے اپنے کالج کے ٹیرس میں کھڑے ہو کر حسب توفیق جملے بازی کرتے تھے۔ لڑکیوں کی بہتات کی وجہ سے تانگے والےاسے ’’کڑیاں دا کالج‘‘ کہتے تھے ۔سو ایم اے او کالج سے فارغ التحصیل مجھ ایسے نوجوانوں کو لیڈی میکلیگن کالج کے سامنے دھوپ سینکنے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی کالج کے پرنسپل ڈاکٹر سیدعبداللہ ایسے عظیم اسکالر تھےکلاس رومز میں طلبہ اور طالبات کے درمیان ایک چلمن کے ذریعے معقول پردے کا انتظام کیا گیا تھا۔ چنانچہ صرف ایک دوسرے کی آوازیں سنائی دیتی تھیں کلاس روم کے باہر بھی اختلاط کی اجازت نہیں تھی اللہ مرحوم و مغفور سجاد باقر رضوی کو ان کی اس خداترسی کا صلہ عطا فرمائے جنہوں نے اپنے کمرے میں انہیں کوئی ضروری بات کرنے کی اجازت دے رکھی تھی۔مجھے اس عظیم درس گاہ میں متعدد ایسے اساتذہ سے شرف ِ تلمذحاصل ہوا جس پر میں بجا طور پر فخر کرسکتا ہوں ان میں ڈاکٹر سید عبداللہ سرفہرست ہیں ڈاکٹرصاحب میر تقی میر کے عاشق تھے اور جو سرور میر کو پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے وہی سرور ڈاکٹر صاحب کی زبانی میر کے اشعار سننے سے حاصل ہوتا تھا ڈاکٹر صاحب اونچا بلکہ کافی اونچا سنتے تھے چنانچہ جب انہیں کسی طالب علم کا سوال صحیح طور پر سنائی نہیں دیتا تھا تو وہ میر ہی کا شعر لہک لہک کر پڑھتے تھے ؎

بہرہ ہوں التفات مجھے دُونا چاہئے

سنتا نہیں ہوں بات مکرر کہے بغیر

ہمیں اقبال پروفیسر وقار عظیم نے پڑھایا، پڑھایا کیا ہمارے رگ وپے میں سرایت کر دیا۔بے حد وضعدار انسان مشرقی کردار کا پیکر لباس شیروانی اور پاجامہ اور گلے میں مفلر آج میں اگر اقبال کے مرتبے سے واقف اور اسکے عشق میں مبتلا ہوں تو یہ پروفیسر وقار عظیم کی دین ہے بے حد سنجیدہ انسان تھے۔ مجھے ڈاکٹر وحید قریشی سےبھی شرف ِ تلمذ حاصل ہوا وہ اتنی اونچی آواز میں لیکچر دیتے تھے کہ میں بعض اوقات نیچے لان میں برگد کے درخت کے نیچے بیٹھا نوٹس تیار کرلیتا ایک دن کلاس روم میں ان کی پاٹ دار آواز گونج رہی تھی کہ ایک طالبہ گھبرا کر اٹھ کھڑی ہوئی اور کہا سر آواز نہیں آ رہی۔ ڈاکٹر صاحب کا جسم بھی ان کی آواز کی طرح دور دراز تک پھیلا ہوا تھا سید وقار عظیم اور ڈاکٹر صاحب کے مابین کچھ اختلافات تھے اور دونوں پرنسپل ڈاکٹر منیر عبداللہ کے سامنے شکوہ کناں رہتے تھے ایک دن سید صاحب نے ڈاکٹر صاحب کو اپنے آفس میں بلایا اور کہا ڈاکٹر صاحب آپ خواہ مخواہ سید وقار عظیم سے شاکی رہتے ہیں اس کی بجائے کسی دن لغزش پاکو بہانہ بنا کران پر گر جائیں ظاہر ہے اس جملےکا لطف ڈاکٹر وحید قریشی نےبھی ضرور لیا ہو گا۔ ڈاکٹر صاحب کے پاس ایک زمانے میں اسکوٹر ہوا کرتا تھا ایک روز ان کے ایک طالب علم نے کہا سر اب آپ کار لے لیںڈاکٹر صاحب نے جواب دیا بس تم دعا کرو جس پر اس نے کہا سر میں نے کیا دعا کرنی ہے دعا تو یہ اسکوٹر ہی کرتا ہو گا۔اس حوالے سے ایک دن استاد دامن نے ڈاکٹر صاحب پر ایک جملہ کسا مگر وہ اس قدر ’’لذیذ‘‘ تھا کہ میں یہاں درج نہیں کر سکتا۔تفنن برطرف ڈاکٹر وحید قریشی کا شمار صف اول کے محققین میں ہوتا تھا اور ہوتا ہے ڈاکٹر صاحب آخری سانس تک علم سے وابستہ رہے اور ہاں وہ زندہ دل بھی بہت تھے ایک دفعہ ایک لڑکا اپنے ساتھ ’’کتورہ‘‘ (کتے کا بچہ) لے آیا تھوڑی تھوڑی دیر بعد اس کی چوں چوں کی آواز سنائی دیتی جب تیسری چوتھی بار یہ آواز آئی تو ڈاکٹر صاحب آواز کا پیچھا کرتے کرتے لڑکے تک پہنچ گئے اور اسے کہا برخوردار اس کتورے کو اپنے ساتھ لے کر کالج کے کلرک کے پاس چلے جائو تمہاری آدھی فیس معاف ہو جائے گی ۔اللہ تعالیٰ ڈاکٹر صاحب کی مغفرت کرے وہ آخری سانس تک علم وادب سے وابستہ رہے وہ آخری عمر میں میرے ہمسائے میں آ گئے تھے بستر سے ہل جل نہیں سکتے تھے لیکن ان کی ظرافت میں کوئی فرق نہیں آیا تھا ایک دن کہنے لگے مرزا ادیب کو پرائڈ آف پرفارمنس ملا ہے مگروہ اس بات پر پریشان ہے کہ یہ اگلے سال کسی اور کو بھی مل جائے گا بستر پر لیٹے لیٹے کتابیں پڑھتے رہتے تھے اور عیادت کیلئے آنیوالوں کو اپنی ہمت اور صبر سے حیران کر دیتے تھے آخر عمر تک حافظہ بھی بے پناہ تھا کوئی تحقیقی گفتگو ہوتی تو ڈاکٹر صاحب حوالے پہ حوالہ دیتے جاتے میں نے اتنا بہادر شخص کسی اور کو نہیں پایا۔اور ہاں ہمارے ایک پروفیسر، صاحب جن کا نام نہیں لوں گا کو، اپنی عمر کم ظاہر کرنے کا بہت شوق تھا ہماری عمر سترہ اٹھارہ برس سے زیادہ کیا ہو گی جبکہ پروفیسر صاحب ریٹائرمنٹ کے قریب تھے ہم جب کلاس میں تھوڑا بہت شور کرتے تو پروفیسر صاحب ڈانٹتے ہوئے کہتے ’’شرم کرو ،حیا کرو، یہاں میری بہنیں بیٹھی ہوئی ہیں ‘‘ایک ایسے ہی موقع پر ایک دل جلے کی آواز آئی سر اگر یہ آپ کی بہنیں ہیں تو پھر ہماری تو پھوپھیاں لگیں اس پر چلمن کی دوسری طرف سے بھی مترنم ہنسی سنائی دی اگرچہ ہمارے اور ہماری کلاس فیلوز کے درمیان چلمن حائل تھی مگر چلمن کے اوپر سے دونوں اطراف سے چھوٹے چھوٹے کاغذ آتے جاتے رہتے تھے اور یقیناً ان پر کچھ لکھا بھی ہوا ہوتا ہو گا مجھے کیا پتہ ۔ان دنوں ایک عشق کا بہت چرچہ ہوا یہ معاشقہ ایک بہت خوبصورت اٹھارہ سالہ دوشیزہ اور ایک پچاس سالہ شاعر کے درمیان تھا بطور شاعر اچھا تھا مگر انسان بہت گھٹیا نکلا یہ اس کے جسم کی کچھ نشانیاں جیب میں لئے پھرتا جو مادی شکل میں تھیں چلیں اس پر لعنت بھیجیں ایک کلاس فیلو خاتون جس کی عمر چالیس برس تھی شادی اپنے بیس سالہ کلاس فیلو سے ہوئی میں نے ان کی شادی کا سہرا لکھا جس کے صرف تین شعر سنا سکتا ہوں۔

میری کہانی!

کچھ تم نے بھی سنا ہے یہ کیسا ماجرا ہوا/یوسف ہمارا ہاتھ زلیخاکے آ گیا /ساری نصیحتیں گئیں اپنی حرام میں/لونڈا غریب آ گیا بڑھیا کے دام میں /مسٹر ہنوز ایک گل نو دمیدہ ہے/ مادام سرد و گرم زمانہ چشیدہ ہے

میرے کلاس فیلوز میں امجد اسلام امجد ، اشرف شاہین، گلزار وفا چودھری، عبداللطیف اختر، سرفراز سید، قیوم نظامی، رفیع الدین ہاشمی اور عبدالغنی فاروق شامل تھے ان میں سے صرف سرفراز سید، قیوم نظامی اور اشرف شاہین حیات ہیں باقی اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں۔ گلزار وفا چودھری بلا کا جملے باز تھا جتنا وہ زمین کے باہر تھا اتنا ہی زمین کے اندر بھی تھا میں یونیورسٹی میگزین ’’محور‘‘ کا ایڈیٹر مقرر ہوا تو گلزار سے مختصر خاکے لکھنے کو کہا اس نے انتہائی بھلے مانس عبدالغنی فاروق کے بارے میں لکھا عبدالغنی فاروق کالج میں ہمیشہ نظریں جھکا کر چلتے ہیں بس جس سے ٹکرانا ہو اس سے جا ٹکراتے ہیں۔ (جاری ہے)

Back to top button