قومی اسمبلی:مربوط ’ڈیجیٹل آئی ڈی‘ کا بل پیش
قومی اسمبلی میں شہریوں کیلئےڈیجیٹل شناخت کے قیام کیلئےمربوط ’ڈیجیٹل آئی ڈی کے نام سے بل پیش کردیا گیا۔
بل وزیر مملکت برائے آئی ٹی و ٹیلی کمیونیکیشن شزہ فاطمہ خواجہ ڈیجیٹل نیشن پاکستان بل 2024 کی جانب سے پیش کیا گیا۔بل کا مقصد سماجی، معاشی اور گورننس ڈیٹا کو مرکزی بنانا ہے۔
ایجنڈے کے مطابق یہ قانون سازی ’پاکستان کوڈیجیٹل قوم میں تبدیل کرنے میں مدد دے گی جس سے ڈیجیٹل سوسائٹی، ڈیجیٹل معیشت اور ڈیجیٹل گورننس کو ممکن بنایا جا سکے گا‘۔
وفاقی کابینہ نےمعیشت کو ڈیجیٹائز کرنے اور ای گورننس کوفروغ دینےکیلئےجون میں بل کی منظوری دی تھی۔
وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ نےکہاہےکہ پاکستان تحریک انصاف ڈی چوک واقعے کے حوالےسےیہ جھوٹ بول رہی ہے، راہ فرار سےبچنے کیلئےبار بار مختلف تعداد بتائی جارہی ہے۔
عطا تارڑ نے مزید کہا کہ پی آئی اے کے بارے میں اپوزیشن کو بات کرنے سے پہلے اپنے دور کی کارکردگی دیکھنی چاہیے، قومی کو پی آئی اے کی یورپ کی فلائٹس بحال پر ہونے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔کرم میں جب لاشیں پڑی تھیں تب یہ اسلام آباد پر لشکر کشی کر رہے تھے، اس وقت اگر انہوں نے اس مسئلے پر توجہ دی ہوتی تو آج یہاں پر لاشوں پر بات کرنے کی نوبت نہ آتی۔
وزیر اطلاعات عطاتارڑ نے کہا کہ ڈی چوک واقعے کے حوالے سے یہ جھوٹ بول رہے ہیں، پاکستان تحریک انصاف لاشوں کی صحیح تعداد بتائے، یہ جھوٹ تب بولا جاتا ہے جب صحیح تعداد کا معلوم نہ ہوں، پارٹی کے مختلف رہنما مختلف نمبرز دے رہے ہیں، اگر یہ واقعہ اصل ہوتا تو یہ ایک نمبر پر بات کرتے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ یہ جھوٹ پر مبنی بیانیہ تھا، راہ فرار سے بچنے کے لیے بار بار مختلف تعداد بتائی جارہی ہے۔
دوران اجلاس پاکستان تحریک انصاف کی رکن قومی اسمبلی زرتاج گل نے ڈی چوک کے مبینہ شہدا کے ناموں کی تفصیل پڑھ کر بتائی۔
زرتاج گل نے اجلاس کو بتایا کہ یہ بے حس حکومت ہے، ڈیرہ اسمعٰیل خان سے شہید کی لاش چار دن تک پڑی رہی،انہوں نے شہدا کو دفنانے بھی نہیں دیا، لوگ نظریے کی خاطر ڈی چوک آئے تھے، بجلی بند کرکے نہتے لوگوں پر گولیاں چلائی گئی۔
رہنما پی ٹی آئی زرتاج گل نےمزید کہا بانی پی ٹی آئی عمران خان کو کال کوٹھری میں رکھا گیا ہے، انہیں کسی سے ملاقات نہیں کرنے دی جاتی، ہم جمہوریت ہر یقین رکھتے ہیں اس لیے مذاکراتی کمیٹی بنائی ہے، ہم مذاکرات ضرور کریں گےلیکن شہدا کی قربانیوں سے پیچھے نہیں ہٹیں گے،جو صحافی ڈی چوک دھرنے کی رپورٹنگ کر رہے تھے انہیں اٹھا لیا گیا۔
قومی اسمبلی کا اجلاس ڈپٹی اسپیکر غلام مصطفی شاہ کی زیر صدارت سروع ہوا۔
اجلاس کے دوران رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر شاہدہ رحمانی نے ریلوے ٹریکس کی خستہ حالی کے حوالے سے سوال کیا۔وقفہ سوالات کے دوران پارلیمانی سیکرٹری برائے ریلوے محمد عثمان نے شرمیلا فاروقی کے ایم ایل ون سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ایم ایل ون پر جیسے ہی کام مکمل ہو گا، ریونیو بھی زیادہ ہوگا اور اموات بھی کم ہوں گی۔
وقفے کے دوران زہرہ ودود فاطمی نے سوال اٹھایا کہ ٹی بی (تپدق) کے بڑھتے ہوئے کیسز کے خلاف حکومت کیا اقدامات لے رہی ہے؟
پارلیمانی سیکرٹری نیلسن عظیم نے اجلاس کو بتایا کہ ٹی بی اس وقت تیزی سے پھیل رہی ہے، اسلام آباد میں 9 ہزار 312 کیسز رجسٹرڈ ہوچکے ہیں، پورے ملک میں 18 لاکھ کیسز رجسٹرڈ ہوچکے ہیں، سرکاری اور غیر سرکاری ہسپتالوں میں فری علاج کیا جاتا ہے۔
شازیہ مری کی جانب سے پشاور میں سانحہ آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) سے متعلق قرار داد پیش کی گئی۔
قرار داد میں کہا گیا کہ اے پی ایس کے بچوں نے بے پناہ ہمت اور حوصلے کا مظاہرہ کیا، یہ ایوان شہدا کے اہلخانہ کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتا ہے، دہشت گردوں نے پاکستان کی روح پر حملہ کیا، 16 دسمبر کو قومی دن کے طور پر منایا جائے، تعلیمی اداروں کے کی سیکیورٹی بڑھانے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔
پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی عبد القادر پٹیل نے کہا کہ ساری سیاسی جماعتوں نے تکلیفیں اٹھائیں، آج اے پی ایس کے بچوں کا غم منانے کا دن ہے، ہمارا قومی رویہ بہت جلد بھول جانے والا ہے، احسان اللہ احسان چابی دےکے واپس چلا گیا، کہا گیا کہ احسان اللہ احسان مرکزی ملزم ہے، سانحہ کارساز کرنے والوں سے بھی ہاتھ ملایا گیا ، آج ملزمان،ساتھ دینے والوں، بسانے والوں اور چھوڑنے والوں کا تعین بھی ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ سقوط ڈھاکہ اور اے پی ایس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا، اے پی ایس کا تو ہم نے سودا کیا، سانحہ میں ملوث ملزمان کو واپس لا کر بسایا گیا۔
جمعیت علمائے اسلام (ف)کے مولانا عبدالغفور حیدری نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ نہیں معلوم کی ریاستی ادارے کس مرض کی دوا ہیں، اے پی ایس جیسے واقعات دوبارہ نہیں ہونے چاہئیں۔