الیکشن 2024 میں شکست کھانے والے اہم قومی رہنما کون؟
پاکستان میں آٹھ فروری کو ہونے انتخابات میں جہاں آزاد امیدواروں کی بڑی تعداد میں جیت نے ایک نیا ریکارڈ قائم کیا ہے وہیں اس انتخاب میں کئی قومی جماعتوں کے سربراہان اور اہم قومی رہنماؤں اور سیاست دانوں کو بھی غیر حتمی سرکاری نتائج کے مطابق اپنے حلقوں میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر جاری ہونے والے فارم 47 کے مطابق سب بری شکست استحکام پاکستان پارٹی کے سرپرست اعلیٰ جہانگیر ترین کے حصے میں آئی، جو ایک نہیں بلکہ قومی اسمبلی کی دو نشستوں سے ہارے۔
این اے 149 ملتان سے پاکستان تحریک انصاف کے آزاد امیدوار ملک عامر ڈوگر نے جہانگیر خان ترین کو 93 ہزار سے زائد ووٹوں سے شکست دی ہے۔ جہانگیر ترین کے اپنے آبائی حلقے این اے 155 لودھراں سے انھوں نے تین امیدواروں کو اپنے حق میں دستبردار کرایا تھا لیکن پھر بھی انہیں 46 ہزار سے زائد ووٹوں سے شکست ہوئی ہے۔ اس حلقے سے انھیں ن لیگ کے صدیق بلوچ نے ایک لاکھ 13 ہزار ووٹ لے کر ہرایا ہے جبکہ جہانگیر ترین کو 66 ہزار ووٹ ملے۔
سابق وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا و وزیر دفاع پرویز خٹک بھی ایک نوزائیدہ جماعت پاکستان تحریک انصاف پارلیمیٹیرینز کے سربراہ ہیں۔ وہ نوشہرہ سے قومی اسمبلی کے حلقے این 33 نوشہرہ سے آزاد امیدوار سید شاہ احد علی کے ہاتھوں 70 ہزار سے زائد ووٹوں اور صوبائی اسمبلی کے پی کے 87 نوشہرہ سے آزاد امیدوار خلیق الرحمان سے 26 ہزار ووٹوں سے ہارے ہیں۔نوشہرہ ہی کی دو نشستوں پر ان کے صاحبزادے بھی شکست سے دوچار ہوئے۔
جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق اپنے حلقے این اے 6 سے ہارنے والے پارٹی سربراہ ہیں جنھیں آزاد امیدوار بشیر خان نے 20 ہزار سے زائد ووٹوں سے شکست دی۔
چارسدہ کے حلقے این اے 24 سے قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب شیرپاو بھی ہار گئے ہیں۔ ان کے مدمقابل آزاد امیدوار انور تاج نے 89801 ووٹ حاصل کیے جبکہ شیرپاو 34،415 ووٹ حاصل کر سکے۔ آفتاب شیرپاو 2018 کے انتخابات میں بھی شکست سے دوچار ہوئے تھے۔
این اے 25 چارسدہ کے حلقہ این اے 25 سے اے این پی کے سربراہ ایمل ولی خان بھی شکست کھا گئے ہیں۔ انہیں آزاد امیدوار فضل محمد خان نے 100،713 ووٹ حاصل کر کے ہرایا۔ ایمل ولی خان 67،876 ووٹ حاصل کر سکے۔ ایمل ولی خان کو 2022 کے ضمنی انتخابات میں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
راولپنڈی کا حلقہ این اے 54 ایسا حلقہ ہے جہاں سے ایک نوجوان اور پہلی مرتبہ انتخابات میں حصہ لینے والے آزاد امیدوار عقیل ملک نے دو چوٹی کے سیاست دانوں، سابق وفاقی وزراء اور سیاسی حریفوں چوہدری نثار علی خان اور غلام سرور خان کو شکست سے دوچار کیا ہے۔
چوہدری نثار علی خان کو اپنے آبائی حلقے این اے 53 سے بھی شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے جہاں سے مسلم لیگ ن کے انجینئیرقمرالاسلام راجا نے شکست دی ہے۔ این اے 54 میں چوہدری نثار علی خان چوتھے جبکہ این اے 53 میں تیسرے نمبر رہے۔
کئی دہائیوں سے ناقابل شکست رہنے والے سابق وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ خان فیصل آباد کے این اے 100 فیصل آباد میں پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار ڈاکٹر نثار جٹ کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہوئے ہیں، جنھوں نے 131996 ووٹ حاصل کیے۔ مسلم ليگ ن کے رانا ثنا اللہ خان 112403 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔
مسلم لیگ ن کے خواجہ سعد رفیق بھی مقبول قومی رہنما ہیں جو اپنا حلقہ جیتنے میں ناکام رہے ہیں۔ این اے 122 سے آزاد امیدوار سردار لطیف کھوسہ ایک لاکھ 17 ہزار 109 لے کر کامیاب ہوئے جبکہ مسلم لیگ (ن) کے امیدوار خواجہ سعد رفیق 77 ہزار 907 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔
گجرات کے حلقہ این اے 65 سے پاکستان پیپلز پارٹی کے قومی رہنما قمر زمان کائرہ مسلسل تیسری بار شکست سے دوچار ہوئے ہیں۔ وہ 2008 کے بعد ہونے والے تینوں انتخابات میں ہر دفعہ تیسرے نمبر پر آتے ہیں۔ اس حلقے سے ن لیگ پہلے، آزاد امیدوار دوسرے نمبر پر رہے۔
قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 264 کوئٹہ 3 میں پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار نوابزادہ میر جمال خان رئیسانی نے 10 ہزار 678 ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی جبکہ ان کے مقابلے میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اختر مینگل 9 ہزار 929 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔
این اے 4 سوات سے محمود خان کو شکست کا سامنا کرنا پڑا، این اے 4 سوات میں پی ٹی آئی حمایت یافتہ آزاد امیدوار سہیل سلطان 88 ہزار 9 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے جبکہ پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹیرین کے محمود خان 16 ہزار 813 ووٹ لےکر تیسرے نمبر پر آئے۔
ملک میں 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات میں ایک اور اپ سیٹ ہوا ہے اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما سابق وفاقی وزیر خرم دستگیر اپنی قومی اسمبلی کی نشست ہار گئے۔خرم دستگیر کو گوجرانوالا میں ن لیگ کی مضبوط تصور کی جانے والی قومی اسمبلی کی نشست این اے 78 میں شکست ہوئی۔تمام 319 پولنگ اسٹیشنز کے فارم 47 کے سرکاری نتیجے کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار محمد مبین عارف 106169 ووٹ لے کر جیت گئے جبکہ خرم دستگير خان صرف
88308 ووٹ لے سکے۔