نواز شریف کا ایک بار پھر اسٹیبلشمینٹ کو رگڑا لگانے کا فیصلہ

مسلم لیگ نون کے قائد اور سابق وزیراعظم نوازشریف عدالتوں کی جانب سے مسلسل ریلیف ملنے کے باوجود گرتی ہوئی پارٹی مقبولیت کی وجہ سے پریشانی کا شکار ہیں۔ جس کی وجہ سے نواز شریف نے نون لیگ کو ایک بار پھر عوامی جماعت بنانے اور خود پر سے ڈیل کا داغ دھونے کیلئے سابقہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو نشانے پر لینے کا فیصلہ کیا ہے۔

روزنامہ امت کی ایک رپورٹ کے مطابق ایون فیلڈ ریفرنس کے بعد نواز شریف العزیزیہ ریفرنس سے بھی بری ہوچکے ہیں۔ جبکہ ان کی نااہلی کا معاملہ بھی ختم ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ سپریم کورٹ نے نااہلی مدت سے متعلق کیس کی تمام درخواستوں کو ایک ساتھ سننے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس ساری صورتحال میں نواز شریف کے آئندہ الیکشن میں حصہ لینے میں حائل بظاہر تمام رکاوٹیں دور ہوچکی۔ یہی نون لیگ چاہتی تھی لیکن نواز شریف پھر بھی پریشان ہیں۔نون لیگ کے تاحیات قائد نواز شریف کی اس پریشانی کو کئی قریبی لوگوں نے نوٹ کیا ہے۔ ان میں حال ہی میں ان سے ملاقات کرنے والے جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان بھی شامل ہیں۔ ایک ہفتہ قبل لاہور میں ہونے والی اس ملاقات کے موقع پر چاروں صوبوں میں دونوں جماعتوں کے مابین سیٹ ایڈجسٹمنٹ سے متعلق معاملات سمیت دیگر ملکی و سیاسی حالات بھی ڈسکس ہوئے۔

اس ملاقات کی تفصیلات سے آگاہ ایک اہم ذریعے نے بتایا کہ اس موقع پر مولانا فضل الرحمن نے نواز شریف کو خاصا پریشان پایا۔ اس کا ذکر انہوں نے اپنے چند قریبی ساتھیوں سے بھی کیا۔ جبکہ ایک اور ذریعے کے بقول نواز شریف سے حال ہی میں ملاقات کرنے والے ایک اور قریبی ساتھی نے تو یہاں تک کہا کہ نواز شریف کی پریشانی دیکھ کر ان کو یہ شک گزرا کہ کہیں یہ بیماری کا بہانہ کرکے دوبارہ لندن نہ چلے جائیں۔ اس ذریعے کے بقول اگرچہ نواز شریف نے خود اس قسم کے خیالات کا اظہار نہیں کیا ہے۔ لیکن یہ ان سے ملاقات کرنے والے چند قریبی لوگوں کے تاثرات ہیں جنہوں نے ان کی پریشانی کو واضح طور پر محسوس کیا۔

اب سوال یہ ہے کہ نواز شریف کس بات پر پریشان ہیں؟ اس بارے میں ذرائع نے بتایا کہ اگرچہ سابق وزیراعظم اپنی انتخابی سیاست میں واپسی کے درمیان حائل تمام رکاوٹوں کے دور ہونے پر خاصے خوش ہیں۔ لیکن ساتھ ہی انہیں نون لیگ کی مقبولیت کا گراف نیچے آنے کی شدید فکر لاحق ہے اور اس بات نے انہیں سخت پریشان کر رکھا ہے۔نواز شریف سمجھتے ہیں کہ ان کی سیاست اور ووٹ بینک کو دھچکا پہنچانے کا ایک بڑا سبب ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کے بیانیہ سے پیچھے ہٹنا ہے۔ یہ بیانیہ پارٹی کو شہباز شریف کی لائن پر چلانے کی وجہ سے بدلنا پڑا۔ جبکہ شہباز شریف کی زیر قیادت سولہ ماہ تک اقتدار میں رہنے والی اتحادی حکومت کی کارکردگی نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی۔ اس دور میں ہونے والی مہنگائی نے عوام کو بھی نون لیگ سے متنفر کردیا۔ ووٹر پہلے ہی بیانیہ بدلنے کے سبب ناراض تھا۔

ذرائع نے انکشاف کیا کہ اس سلسلے میں نواز شریف نے اپنے چھوٹے بھائی اور پارٹی کے صدر شہباز شریف کی بھی سخت کلاس لی ہے۔ انہیں کہا ہے کہ پہلے بیانیہ بدلنے اور بعد ازاں ان کی وزارت عظمیٰ کے دور میں ہونے والی مہنگائی نے پارٹی کی ساکھ مٹی میں ملا دی ہے۔ذرائع کے بقول نواز شریف کو خوف ہے کہ متذکرہ تمام عوامل آئندہ الیکشن میں نون لیگ کے ووٹ بینک کو بری طرح متاثر کرسکتے ہیں۔ مریم نواز کے حال ہی میں گجرات میں ہونے والے فلاپ شو نے بھی انہیں فکر مند کردیا ہے۔ اب وہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح نون لیگ کے متاثرہ ووٹ بینک اور گرتی مقبولیت کو سنبھالیں۔اسی لئے انہوں نے ایک بار پھر سابق اسٹیبلشمنٹ کے ان کرداروں کو للکارنے کا سلسلہ شروع کیا ہے، جنہیں وہ اپنی نااہلی اور سزائوں کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں انہیں وزارت عظمیٰ سے محروم ہونا پڑا تھا۔ اب ان کی کوشش ہے کہ کسی طرح ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا پرانا بیانیہ زندہ کرکے گرتے ووٹ بینک کو سہارا دیا جاسکے۔ چنانچہ اب انہوں نے شہباز شریف کے مشوروں کو سائیڈ کردیا ہے۔

یاد رہے کہ لندن سے اپنی واپسی سے قبل انہوں نے سابق اسٹیبلشمنٹ کے بعض کرداروں کے احتساب کی بات کی تھی۔ لیکن پھر یوٹرن لے لیا تھا۔ اور پاکستان پہنچنے پر ایک بڑے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی پہلی ترجیح ملک کی معیشت کو سہارا دینا ہے۔ اب انہیں احساس ہوا ہے کہ پرانے بیانیہ سے پہلو تہی پارٹی کی رہی سہی ساکھ بھی تباہ کردے گی۔چنانچہ وہ ایک بار پھر پرانی اسٹیبلشمنٹ کے بعض کرداروں کے احساب کی بات کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔اب دیکھنا ہے کہ وہ اس حوالے سے کتنا آگے جاتے ہیں اور کیا اس حکمت عملی سے پارٹی کی مقبولیت دوبارہ ٹریک پر

تحریک انصاف نے 8 فروری کےعام انتخابات کیسے موخر کروائے؟

چڑھ جائے گی۔ اس بات کا فیصلہ تو آنے والا وقت ہی کرے گا۔

Back to top button