واپسی پر نوازشریف کی اسٹیبلشمنٹ سے صلح ہوگی یا جنگ؟
کار عمار مسعود نے کہا ہے کہ نواز شریف اگرچہ اب بھی عمران خان کی حکومت اور اس کے لانے والوں سے سخت نالاں ہیں۔ کبھی کہتے ہیں کہ ان کو سخت سزا دی جانی چاہیے، پھر فرماتے ہیں کہ ہم انتقام کی سیاست نہیں کرنا چاہتے۔ کبھی عمران خان کے لانے والوں پر برستے ہیں تو کبھی امن و آشتی کا پیغام دیتے ہیں۔ کبھی جی 20 میں شریک نہ ہونے پر افسردہ ہوتے ہیں، کبھی عمران خان کے دور حکومت کی مہنگائی کا قصہ لے بیٹھتے ہیں۔نواز شریف قریبا 4 برس کے بعد وطن واپس آ رہے ہیں ان 4 برسوں میں یہ ملک بہت بدل چکا ہے، اب اینٹی اسٹیبلشمنٹ جماعت ن لیگ نہیں پی ٹی آئی کہلاتی ہے. اپنی ایک تحریر میں عمار مسعود کا کہنا ہے کہ جس دن سے شہباز شریف نے ایون فیلڈ کے فلیٹ کی سیڑھیوں میں کھڑے ہو کر یہ اعلان کیا ہے کہ نواز شریف 21 اکتوبر کو واپس آ رہے ہیں، اس دن سے ملکی سیاست میں ایک ہلچل سی مچ گئی ہے۔ شہباز شریف حکومت کے صدمے سے نڈھال، مسلم لیگ ن کے تن مردہ میں جان سی پڑ گئی۔ چوکوں، چوراہوں پر یہ بحث زور پکڑ گئی ہے کہ نواز شریف کے استقبال کو کتنے لوگ آئیں گے؟ روزانہ تنظیمی اجلاسوں کی کارروائی میڈیا پر شیئر ہونے لگی۔ کارکنوں کو مختلف کارنر میٹنگز میں ہلا شیری دی جا رہی ہے۔ پارٹی کے جھنڈے تقسیم کیے جا رہے ہیں۔ انقلابی ویڈیوز بن رہی ہیں، جذباتی ترانے ریکارڈ کروائے جا رہے ہیں، نت نئے نعرے تخلیق کیے جا رہے ہیں۔ وال چاکنگ کے بارے میں بھی غور کیا جا رہا ہے۔ موٹر سائیکل والوں کے ہراول دستے ترتیب دیے جا رہے ہیں۔ یہ نواز شریف کی عین خوش قسمتی ہے کہ اس دفعہ ان کے استقبال کی تیاریاں مریم نواز کی رہنمائی میں ہو رہی ہیں۔ اگر یہ فریضہ شہباز شریف کو سونپ دیا جاتا تو خدشہ تھا کہ ایک دفعہ پھر وہ ہجوم کو لے کر گلیوں میں پھرتے رہتے اور کسی ایسے مقام پر لاوارث چھوڑ دیتے جہاں سے نہ آگے جانے کا کوئی رستہ ہوتا نہ واپسی کی کوئی سبیل دریافت ہوتی۔ لوگ نہ ایئرپورٹ پہنچ پاتے نہ مینار پاکستان تک کا رستہ ان کی دسترس میں ہوتا۔ ہجوم وہیں پہنچتا جہاں اپنی تمام تر سیاست کے بعد شہباز شریف پہنچے ہیں یعنی وزیر اعظم تو بن گئے مگر کوئی تسلیم ہی نہیں کر رہا تھا۔ کسی کو کیا کہیں شاید خود شہباز شریف کو بھی اب تک یقین نہیں آیا ہوگا۔ عمار مسعود لکھتے ہیں کہ مسلم لیگ ن نے ہمیشہ یہ بیانیہ اپنایا کہ ’قائد محترم‘ کی سزا اور نااہلی کے بعد پارٹی کا ایک بھی کارکن نہیں ٹوٹا۔ سب ثابت قدمی سے قائد کے بیانیے پر ڈٹے رہے۔ سب جانتےہیں کہ یہ پورا سچ نہیں ہے۔ بہت سے لوگوں پر جب عتاب ٹوٹا تو وہ ’نیویں نیویں‘ ہو کر چلنے کو فوقیت دینے لگے۔ وہ مزاحمت کے دور میں مفاہمت کا پرچم گیٹ نمبر 4 کے سامنے لہرانے لگے۔ بہت سوں نے وزارتیں سنبھالیں اور سلیوٹ کرنے ’بڑے گھر‘ پہنچ گئے۔ بہت سے لوگ کارکنوں کو کوٹ لکھپت جیل کے باہر مظاہروں سے چوری چھپے منع کرتے رہے۔ بہت سے لوگ مریم نواز کو لیڈر تسیلم کرنے سے منکر رہے اور نواز شریف کی بیٹی کے خلاف سازشوں میں مصروف رہے۔ المیہ یہ ہے کہ جب نواز شریف آئیں گے تو یہی لوگ ان کے دائیں بائیں نظر آئیں گے اور ان کی شان میں وہ، وہ قصیدے پڑھیں گے کہ نواز شریف کے دل سے جلاوطنی کی تمام ترکلفت جاتی رہے گی۔
یہ کوئی نئی بات نہیں ہوگی، یہ ہمیشہ سے مسلم لیگ ن کا مزاج رہا ہے۔ نواز شریف بہت عرصے سے خاموش تھے اب دھیرے دھیرے ان کے بیانات پھر منظر عام پر آنے لگی ہیں۔ اب وہ قوم کو شہباز شریف کی حکومت میں کیے گئے فیصلوں کا جواز پیش کرنے لگے ہیں ۔ وہ بتانے لگے ہیں کہ ہم نے ریاست کو بچایا مگر اپنے ہاتھوں سے اپنی سیاست کو تباہ کر لیا۔ عمار مسعود کا کہنا ہے کہ نواز شریف قریبا 4 برس کے بعد وطن واپس آ رہے ہیں۔ جس وقت نواز شریف ملک سے گئے تھے، اس وقت ان کی گرتی صحت اور پلیٹلیٹس کی کمی میڈیا کی سب سے بڑی خبر تھی۔ اس زمانے میں ’ووٹ کو عزت دو‘ سب سے بڑا نعرہ تھا۔ اس وقت مسلم لیگ ن اینٹی اسٹیبلشمنٹ کا سب سے بڑا استعارہ تھی۔ اس وقت عمران خان کی حکومت تھی۔ لوگ عمران خان کے دور حکومت کی مہنگائی سے تنگ تھے۔ ریاست کا جبر ن لیگ کے تمام رہنماؤں پر ٹوٹ رہا تھا۔ ان کی رہائی کے لیے جگہ جگہ آواز اٹھ رہی تھی۔ جیل میں قید رہنماؤں کے حق میں سوشل میڈیا پر ٹرینڈ بنائے جا رہے تھے۔ لیکن یہ اسی زمانے کی بات ہے۔ اب نواز شریف کو اس ملک سے گئے 4 برس گزر چکے ہیں۔ ان 4 برسوں میں یہ ملک بہت بدل چکا ہے۔ اب نواز شریف صحت یاب ہو کر پاکستان کے سوا کئی ممالک کا دورہ کر چکے ہیں۔ اب الحمدللہ وطن عزیز میں کوئی ووٹ کی عزت کا نعرہ نہیں لگا رہا۔ اب مسلم لیگ ن اینٹی اسٹیبلشمنٹ جماعت نہیں رہی۔ اب مسلم لیگ ن کا کوئی رہنما جیل میں قید نہیں ہے۔ اب لوگ مسلم لیگ ن کی حکومت کو مہنگائی کا موجب سمجھتے ہیں۔ اب پاکستان بہت بدل چکا ہے۔ اب عمران خان اور ان کے بیشتر ساتھی قید میں ہیں۔ اب اینٹی اسٹیبلشمنٹ جماعت ن لیگ نہیں پی ٹی آئی کہلاتی ہے۔ اب جنرل باجوہ جا چکے ہیں، اب فیض حمید کی مدت ملازمت ختم ہو چکی ہے۔ اب لوگوں کو سیاست کا ہوش نہیں۔ اب لوگوں کو دو وقت کی روٹی فکر ڈس رہی ہے۔ اب بجلی کے بل عوام کا سینہ چاک کر رہے ہیں۔ اب اشیائے صرف کی قیمتیں لوگوں کو خود کشیوں پر مجبور کر رہی ہیں۔ اب بے روزگار نوجوان دن دیہاڑے لوٹ مار کر رہے ہیں۔ اب بھارت چاند پر پہنچ چکا ہے۔ اب افغانستان دوست ملک سے ایک فتنہ پرداز ملک میں تبدیل ہو چکا ہے۔ اب پاکستان بہت بدل چکا ہے۔
عمار مسعود نواز شریف کو مخاطب کرتے ہوۓ کہتے ہیں کہ میاں صاحب! 4 سال پہلے جس پاکستان کو چھوڑ کر آپ دیار غیر گئے تھے، اب یہ وہ پاکستان نہیں رہا۔ اب یہ وہ ملک نہیں جہاں نظریے کی سیاست ہو سکتی ہے۔ اب یہ ملک بدل چکا ہے۔ اب یہاں بھوک ننگ اور افلاس کا راج ہے۔ اب یہاں دو وقت کی روٹی سب سے بڑا نظریہ ہے۔ یہاں موٹر سائیکل میں پٹرول ڈلوانا سب سے بڑی عیاشی ہے، یہاں بجلی کا بل ادا کرنا سب سے بڑا کارنامہ ہے۔ یہاں بچوں کے سکول کی فیس دینا ایک اہم واقعہ ہے۔ یہاں مفت آٹے کی قطار میں لوگ مر جاتے ہیں اور اگلے دن اس سے بھی لمبی قطار موجود ہوتی ہے۔میاں صاحب! یہ ملک آپ کا ہے، آپ شوق سے واپس آئیں۔ بس! یاد رہے کہ یہ وہ ملک نہیں جس کو آپ چھوڑ کر گئے تھے۔ اب یہ ملک بہت بدل
سپریم کورٹ میں ججز کے اختلافات، چیف جسٹس مشکل میں؟
چکا ہے۔