24 نومبر کو اسلام آباد میں احتجاج کی کال جھاگ کی طرح بیٹھ گئی

بانی پی ٹی آئی عمران خان کی فائنل کال پر آنے والا انتشار نما انقلاب جھاگ کی طرح بیٹھ گیا عوام نے قیدی نمبر 804 کی احتجاج کی فائنل کال جوتے کی نوک پر رکھ دی۔ لاہور سمیت پنجاب کے دیگر شہروں سے چند ہزار کارکنان تک اکھٹے نہیں کیے جاسکے۔ جبکہ وزیر اعلی خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور خیبر پختونخواہ میں بھی تمام تر سرکاری وسائل استعمال کرنے کے باوجود اسلام آباد پر چڑھائی کیلئے کارکنان کی مطلوبہ تعداد کا ہدف پورا کرنے میں بری طرح ناکام رہے۔ اس ضمن میں سابق خاتون اول بشری کے تمام احکامات بھی رائیگاں گئے جس پر بشری بی بی اور علی امین گنڈاپور کھ مابین تلخ جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔جبکہ دوسری جانب سندھ اور بلوچستان میں احتجاج کا نام و نشان تک دکھائی نہیں دیا۔ بالخصوص کراچی میں کاروبار ہائے زندگی بلاتعطل جاری رہے۔ ماضی میں کلفٹن تین تلوار اور فائیواسٹار چورنگی پر جو مٹھی بھر کارکنان مظاہرہ کرتے نظر آتے تھے، وہ بھی گھروں میں دبکے بیٹھے رہے۔

مبصرین کے مطابق کراچی سمیت سندھ میں پی ٹی آئی کی عوامی مقبولیت کا پول توبلدیاتی انتخابات میں عبرت ناک شکست ہی سے گھل چکا تھا جبکہ سب جانتے ہیں کہ بلوچستان میں تو تحریک انصاف کا وجود شروع سے صرف کاغذوں کی حد تک ہی محدودرہا ہے۔ اسی لیے وہاں سے احتجاج کی امید سرے سے رکھی ہی نہیں گئی تھی۔“ پی ٹی آئی قیادت کو سب سے بڑا دھچکا خیبر پختونخواہ کے عوام نے دیا۔ بانی پی ٹی آئی کی اہلیہ بشری کے تمام احکامات رائیگاں گئے۔ ایم این ایز 10 ہزار اور ایم پی ایز 5 ہزار ورکرز لانے میں ناکام رہے۔ پشاور سمیت صوبے بھر سے پی ٹی آئی مطلوبہ ہدف پورا نہ کر سکی اور صرف چند ہزار کارکن ٹولیوں کی شکل میں صوابی پہنچے ۔ پشاور سے صوابی کا رخ کرنے والے علی امین گنڈا پور کے ہمراہ سابق خاتون اول بشری بھی شامل تھی۔

روزنامہ امت کی ایک رپورٹ کے مطابق اس ضمن میں وزیر اعلیٰ گنڈا پور کے قریبی ذرائع نے انکشاف کیا کہ ہفتہ کی رات تک بشری کا مارچ میں شریک ہونے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ لیکن سوشل میڈیا پر کارکنان کی تنقید دیکھتے ہوئے انہیں مجبوراً یہ نمائشی شرکت کرنی پڑی۔ تاہم انہوں نے پہلے شوہر خاور مانیکا سے ہوئی اپنی اولاد کوممکنہ خطرات سے دور رکھا۔ اور انہیں اپنے حالیہ شوہر کی فائنل کال کا حصہ نہیں بننے دیا۔

ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ خیبرپختونخوا کے عوام نے بھی پی ٹی آئی کی احتجاجی پالیسیوں کو مسترد کر دیا ہے اسی وجہ سے اسلام آباد پر چڑھائی کیلئے خیبر پختونخواہ کے پارٹی رہنما اور عہدے دار، ورکرز کا انتظار کرتے رہے اور حجروں سے اعلانات کیے جاتے رہے۔ تاہم بیشتر والدین نے اپنے بچوں کو خطرے میں پڑنے سے روک دیا۔ صوابی میں بندوں سے زیادہ گاڑیاں نظر آئیں۔صرف چند ہزار کارکنوں کے ساتھ ٹولیوں کی شکل میں پی ٹی آئی کے صوبائی وزرا اور اراکین اسمبلی صوابی پہنچے۔

پی ٹی آئی قیادت پشاور شہر سمیت مضافاتی علاقوں اور دیہاتوں سے بھی یوتھیوں کو نکالنے میں بری طرح ناکام رہی اور ہر مضافاتی علاقے سے صرف چند گاڑیاں ہی صوابی کا رخ کرتی نظر آئیں، جن میں ورکرز کو متحرک رکھنے کے لئے پارٹی ترانے بجائے جاتے رہے۔ پارٹی رہنماورکرز کا انتظار کرتے رہے اور بعد ازاں اعلانات کے ذریعے پارٹی کارکنوں کو قافلے میں شامل ہونے کے لئے دعوت دیتے رہے ، جس پر کارکنوں کی بڑی تعداد نے کان نہیں دھرے۔ جب کہ بیشتر والدین نے اپنے بچوں کو اسلام آباد مارچ اور احتجاج سے دور رہنے کی ہدایت کی اور سختی سے حکم دیا کہ وہ کسی بھی احتجاج کا حصہ نہ بنیں۔ کیونکہ اس سے پہلے بھی پی ٹی آئی احتجاج کے دوران پارٹی رہنما، ورکرز کو اکیلا چھوڑ گئے تھے اور کئی دنوں تک ورکرز جیلوں میں پڑے رہے اور پولیس کے لاٹھی چارج و آنسوگیس کا سامنا بھی کیا۔ ذرائع کے مطابق پشاور سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی کے متعدد کارکن آدھے راستے سے ہی واپس چلے آئے اور صرف حاضری لگوائی اور تصاویر بنا کر سوشل میڈیا پر شیئر کر دیں۔ تحریک انصاف مارچ میں کارکنوں سے زیادہ تعداد گاڑیوں کی رہی اور پی ٹی آئی ورکرز نے اپنی گاڑیاں بڑی تعداد میں مارچ میں شامل کر رکھی تھیں جس سے قافلہ آہستہ آہستہ آگے بڑھتا رہا۔ تا ہم بعض ایسی گاڑیاں بھی قافلے میں دیکھی گئیں جس میں صرف ڈرائیور اور ایک یا دو افراد ہی سوار تھے۔

سندھ پنجاب سرحد ٹریفک کے لیےکھول دی گئی

ادھر پنجاب میں پی ٹی آئی رہنما، کارکنان کو چڑھ جائو سولی“ کا درس دے کر فرمائشی گرفتاریاں دیتے رہے۔ محفوظ حراست کا راستہ چنے والوں میں ملتان سے زین قریشی اور عامر نمایاں تھے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ گرفتاری سے بچنے کے لیے کئی ماہ سے روپوش حماد اظہر نے دعوی کیا تھا کہ وہ پنجاب سے نکلنے والے قافلے کی قیادت کریں گے ۔ تاہم ان کی یہ بڑھک ، مینڈک کی چھینک ثابت ہوئی۔ یہ صورتحال دیکھتے ہوئے کارکنان نے بھی خود کو سوشل میڈیا تک محدود رکھنے میں عافیت سمجھی۔ لاہور کا لبرٹی چوک جو پی ٹی آئی کارکنان کے ہلہ گلہ کرنے کے لیے معروف سمجھا جاتا تھا۔ اور جہاں ”انقلابی کنسرٹ“ کا تسلسل رہتا تھا۔ وہاں بھی فائنل کال کے دن الو بول رہے تھے۔ لاہور میں جن چند کارکنوں نے اکٹھا ہونے کی کوشش کی بھی تو انہیں پولیس نے با آسانی منتشر کر دیا۔ اس دوران کچھ کارکنوں کو حراست میں لیا گیا۔ جب کہ موقع پر موجود عہدے دار اپنے کارکنوں کو تنہا چھوڑ کر فرار ہو گئے ۔ پی ٹی آئی میڈیا سیل کارکنوں کو گھر سے نکلنے کیلئے اکساتا رہا لیکن بزدل قیادت سے مایوس کارکنان نے پی ٹی آئی کے اعلانات اور پیغامات پر کان نہیں دھرے۔

Back to top button