عمران سے پہلے اسپیکر کو نہ ہٹانے کی اپوزیشن نے بڑی غلطی کی
اپوزیشن کی جانب سے وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے سے پہلے اسپیکر اور ڈپٹی سپیکر کو فارغ کرنے کی تجویز پر کان نہ دھرنے کا نتیجہ 3 اپریل کو سامنے آ گیا جب قاسم سوری نے اپوزیشن کی بنی بنائی گیم الٹا دی اور تحریک عدم اعتماد غیر ملکی سازش کا حصہ قرار دے کر مسترد کردی۔
یاد رہے کہ اس سے پہلے گذشتہ برس چیئرمین سینٹ کے الیکشن میں بھی اپوزیشن کے امیدوار یوسف رضا گیلانی کو تب سرپرائزڈ شکست ہو گئی تھی جب حکومتی اتحاد جی ڈی اے سے تعلق رکھنے والے مظفر حسین شاہ نے بطور پریزائڈنگ آفیسر گیلانی کے حق میں پڑنے والے 7 ووٹوں کو متنازعہ قرار دے کر رد کر دیا تھا۔ اسی لیے اپوزیشن اتحاد کی قیادت کو آئینی ماہرین کی جانب سے مشورہ دیا گیا تھا کہ وہ وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے سے پہلے اسپیکر اور ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی کو فارغ کروائیں تا کہ عدم اعتماد پر ووٹنگ والے دن دوبارہ سے کوئی واردات نہ ڈالی جا سکے۔
تاہم اپوزیشن قیادت نے اس تجویز پر کان نہیں دھرے۔ 3 اپریل کو قومی اسمبلی میں وزیر اعظم کیخلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد پر کارروائی شروع ہونے سے پہلے اپوزیشن نے اسپیکر اسد قیصر کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک تو جمع کروا دی لیکن یہ بھول بیٹھی کہ حکومتی جماعت کے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کے پاس بھی وہی اختیارات ہیں جو سپیکر کے ہوتے ہیں،
اپوزیشن یہ حقیقت بھی نظر انداز کر بیٹھی کی جو کردار اپنی قیادت کے حکم پر اسد قیصر ادا کر سکتے ہیں وہ کردار قاسم سوری کیوں ادا نہیں کریں گے، حکومتی جماعت نے پہلے سے ہی تحریک عدم اعتماد کو مسترد کرنے کا منصوبہ بنا رکھا تھا جس پر اسد قیصر نے عملدرآمد کرنا تھا لیکن ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد آنے کے بعد جب قاسم سوری نے اس منصوبے کے تحت تحریک عدم اعتماد مسترد کرنے کی رولنگ پڑھی تو اس میں اسد قیصر کا نام بھی پڑھ گئے، یعنی فواد چوہدری کی جانب سے پیش کردہ تحریک پر پہلے سے ہی رولنگ تیار تھی۔
یاد رہے کہ تحریک عدم اعتماد کو مسترد کرنے کی رولنگ کے اختتام پر سپیکر اسد قیصر کا نام درج تھا اور ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے رولنگ کے اختتام پر انکا نام بھی پڑھا، گو کہ اپوزیشن کا یہ استدلال کافی حد تک درست ہے کہ حکومت کی جانب سے اس انتہائی اقدام جیسی غیر آئینی اور غیر قانونی رولنگ کی ہرگز تو قع نہیں تھی کیونکہ حکومت نے بار بار کہا تھا کہ تحریک پر ووٹنگ ہوگی اور ایوان کے کسٹوڈین بھی یہی یقین دہانی کرا رہے تھے لیکن اپوزیشن کی تجربہ کار شخصیات کو یہ بھی سوچنا چاہئے تھا کہ اگر وزیر اعظم اپوزیشن کی واضح عددی برتری اور اپنے منحرف اراکین کی بڑی تعداد میں بے وفائی کے باوجود تسلسل کیساتھ جیت کے دعوے کر رہے تھے تو ان کا منصوبہ کیا تھا، وہ اتنے پراعتماد کیوں تھے اور اپنے ساتھیوں کو حوصلہ اور یقین دہانیاں کیوں کرا رہے تھے۔
عمران نیازی نے غیرآئینی سول مارشل لاء نافذ کیا
اب اسی لئے عمران خان بڑے فخریہ اور طنزیہ انداز میں کہہ رہے ہیں کہ اپوزیشن کو سمجھ ہی نہیں آئی کہ ان کیساتھ ہوا کیا ہے، اس صورت حال پر اپوزیشن کے ایک رکن اسمبلی کا کہنا تھا ہمیں خدشہ تھا کہ سپیکر معاملے کو طول دینے کیلئے کوئی جواز بنا کر اجلاس ختم نہ کردیں یہی وجہ تھی کہ ہمیں سختی سے ہدایت کی گئی تھی کہ ایوان میں حکومتی بنچوں کی جانب سے اشتعال انگیزی کے باوجود کسی جوابی ردعمل کا مظاہرہ نہیں کرنا، لیکن ہمیں یہ علم نہیں تھا کہ ڈپٹی سپیکر عدم اعتماد کی تحریک ہی کو غیر آئینی قرار دیکر خود اتنی بڑی آئین شکنی کرینگے، لیکن ان کا کہنا تھا کہ ایک طرح سے اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو گئی ہے چونکہ اپوزیشن کی تحریک کا بنیادی مقصد عمران خان کی حکومت کا خاتمہ تھا۔
opposition made big mistake not removing speaker before Imran | video in Urdu