کہیں اپوزیشن جماعتوں کو ٹریپ تو نہیں کیا جا رہا؟
پاکستان کی طاقتور فوجی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے نیوٹرل ہو جانے کے دعووں کے بعد اپوزیشن جماعتیں وزیر اعظم عمران خان کی خلاف تحریک عدم اعتماد تو لا رہی ہیں لیکن ان خدشات کا بھی اظہار کیا جا رہا ہے کہ
کہیں اپوزیشن کو ایک اور شکست سے دوچار کرنے کے لیے ٹریپ تو نہیں کیا
جا رہا جس کے بعد کپتان آرام سے اپنی حکومت کی پانچ سالہ مدت پوری کر لیں گے۔
معروف صحافی عمارمسعود اپنے تازہ ترین سیاسی تجزیے میں کہتے ہیں کہ اپوزیشن بار بار کہہ رہی ہے کہ اس دفعہ وہ نہیں ہو گا جو چیئرمین سینٹ کے الیکشن میں ہوا، یا جو سلوک فنانس بل کے موقع پر اپوزیشن سے روا رکھا گیا۔ لیکن پھر بھی لوگ بجا طور پر خوف، خطرے اور خدشات کا شکار ہیں۔ انکے بقول خوف اس بات کا ہے کہ یہ سب ایک "ٹریپ” نہ ہو جس کا مقصد اپوزیشن کی سبکی ہو اور عمران کا اقتدار مکمل کروانا ہو۔ خطرہ اس بات کا بھی ہے کہ اگر عدم اعتماد کامیاب ہو گئی تو "ووٹ کو عزت دینے” والوں کو سمجھوتہ کرنا پڑ جائے گا۔ اور خدشہ اس بات کا بھی ہے کہ نئے الیکشن کا وعدہ کر کے نئی حکومت کو طول دینے کے بہانے تراشے جائیں اور بعد ازاں یہ وعدہ جنرل ضیاء الحق کے نوے دن میں الیکشن کا وعدہ ثابت ہو۔
عمار مسعود کہتے ہیں کہ فرض کیجیے عمران کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوتی ہے، ایک عبوری حکومت معرض وجود میں آتی ہے اور فوری نئے انتخابات کا اعلان کر دیتی ہے، تو کیا سیاسی جماعتیں اس مہم جوئی کے لیے تیار ہیں۔ کون کون سی جماعت الیکشن میں جانے کے لیے تیار ہے اور کون کون سی جماعت ابھی تیاریوں کا سوچ رہی ہے۔ کس کا ہاتھ عوام کی نبض پر ہے اور کس کا مطمحۂ نظر جوڑ توڑ کی سیاست ہے۔ کون الیکٹیبلز کو اپنے ساتھ ملانے کے خواب دیکھ رہا ہے اور کون نظریے کی سیاست کرنے کا خواب دیکھ رہا ہے۔
بقول عمار مسعود، تیاری کے حساب سے تحریک انصاف سب سے کمزور وکٹ پر ہے۔ ساڑھے تین برس کی مہنگائی، مسلسل یو ٹرن، بیڈ گورننس، اور خارجہ پالیسی نے تحریک انصاف کو اس مقام پر پہنچا دیا ہے کہ لوگوں کی بڑی تعداد متنفر ہو چکی ہے۔ بہت سے لوگ جو اس جماعت کے ٹکٹ پر جیتے تھے وہ تحریک انصاف سے ٹکٹ بھی حاصل کرنے کے خواہاں نہیں ہیں۔ ویسے بھی ہر حکومت کی کاکردگی کی ایک اپوزیشن عوام کی جانب سے ہوتی ہے ۔ تحریک انصاف کو اس کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔ حکومت کی اتحادی جماعتیں مسلم لیگ ق، ایم کیو ایم اور جی ڈے اے اور باپ جیسے گروپ حکومت کی تین سال طرف داری کا خمیازہ بھگتیں گے۔
وزراتوں کے مزے لینے والے اس بات کو بھول گئے کہ کبھی ان کو عوام کے پاس بھی جانا ہوگا، اسی عوام کے پاس جن کو مہنگائی نے مار دیا، جس کو بے روزگاری نے ختم کر دی، جن کا اس دور پر آشوب میں جینا دوبھر ہو گیا۔ اس لیے ان چھوٹی جماعتوںاور گروپس کو حکومت کے کیے کی سزا بھگتنی پڑے گی۔ خیال یہ ہے کہ اگلے الیکشن میں ان جماعتوں کا حصہ پہلے سے بھی کم ہو جائے گا۔ جو چند نشستیں ان کے مقدر میں تھیں یہ ان سے بھی جائیں گے۔ دوسری جانب حکومت میں ہونے کی وجہ سے ان جماعتوں نے کسی بھی قسم کی عوامی رابطہ مہم سے اجتناب کیا ہے۔ جان بوجھ کو لوگوں کے مسائل سے پردہ پوشی کی۔ جس کا خمیازہ ان کو آئندہ انتخابات میں بھگتنا ہے۔
عمار مسعود کہتے ہیں کہ اب ذکر اپوزیشن کی تین بڑی جماعتوں کا ہو جائے۔ پیپلز پارٹی باوجود کوشش کے پنجاب میں قدم نہیں جما سکی۔ بیانیے کے حوالے سے بھی پیپلز پارٹی کے کردار پر سوالات اٹھتے رہے ہیں۔ یہ جماعت جو کبھی پاکستان کی سب سے مقبول جماعت تھی اب نظریاتی انتشار کا شکار نظر آتی ہے۔ ماضی قریب میں اس جماعت نے بہت سے مواقع پر سمجھوتا کیا جو اس جماعت کا طرۂ امتیاز نہیں۔ کے پی کے میں ان کی نشستیں بحرحال موجود ہیں۔ سندھ کے شہری علاقوں میں ایم کیو ایم کی تقسیم کے بعد پیپلز پارٹی کے لیے گنجائش باقی ہے۔
اس لیے بہت ممکن ہے کہ وہ انتخابات میں یہاں اچھِی تعداد میں نشستیں لینے میں کامیاب ہو جائیں۔ اسی طرح مولانا فضل الرحمن کی جماعت جے یو آئی ف وہ جماعت ہے جس نے نہایت دلیری سے اپوزیشن کی۔ بڑی بڑی قوتوں کو لکارا، جلسے لانگ مارچ کیے۔ کسی موقع پر سمجھوتا نہیں کیا۔ کسی موقع پر بھی کسی مصلحت کا شکار نہیں ہوئے۔ ہر شہر میں ان کے حامیوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔ جن کو مولانا نے بہت ایکٹیو بھی رکھا ہوا ہے۔ کے پی کے انتخابات میں انھوں نے متاثر کن کامیابی بھی حاصل کی۔ یہ جماعت باقی جماعتوں کو سرپرائز دینے کی اہلیت رکھتی ہے۔
بقول عمار مسعود مسئلہ صرف یہ کہ ہمارے ہاں دینی جماعتیں انتخابات میں کبھی بھی بڑے پیمانے پر کامیابی حاصل نہیں کر سکیں۔ انکی سڑیٹ پاور، جلسوں میں لوگوں کی تعداد، جان نثار کارکن اپنی جگہ لیکن قومی سطح کے انتخابات میں ان کی کامیابی ہمیشہ محدود رہی ہے۔ یہی المیہ اگلے انتخابات میں جمعیت علماء اسلام ف کو پیش ہو گا۔
مسلم لیگ ن اس وقت عوامی مقبولیت کے حوالے سے سب سے بڑی جماعت ہے۔ ہر صوبےمیں ان کے حامیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ ان کوفائدہ یہ ہے کہ عوامی مسائل حل کرنے کا ہنر بھی ان کے پاس ہے اور نظریے کا نعرہ بھی ان کے ساتھ ہے۔ پنجاب میں اس وقت انہی کا طوطی بول رہا ہے۔ کسی اور جماعت کے لیے پنجاب میں مسلم لیگ ن کی مقبولیت میں ڈینٹ ڈالنا محال ہے۔
نواز شریف نے گذشتہ پانچ برس میں جو سیاست کی ہے اس سے اس سماج میں ایک بڑی شعوری تبدیلی وقوع پذیر ہوئی ہے۔ مسلم لیگ ن نے ان برسوں میں ورکرز کو بھی ایکٹیو رکھا ہے۔ ان کو سوچنے کا میٹریل بھی فراہم کیا ہے اور عوامی جذبات کی سیاست بھی کی ہے۔ اگر ہم یہ فرض کریں کہ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو گئی، اس کے نتیجے میں جلد از جلد انتخابات ہوں تو بظاہر یہ قیاس درست لگتا ہے کہ مسلم لیگ ن پہلے سے بڑی قوت بن کر ابھرے گی اور اگران کا انتخابی اتحاد مولانا فضل الرحمن سے ہو گیا تو اس قوت کو کوئی نہیں پچھاڑ سکے گا۔