پاکستان کو ایران سے تعلقات بڑھا کر کیا فائدہ حاصل ہوگا؟

پاکستان کے پہلے دورے پر آئے ایرانی صدر ابراہیم رئیسی اسلام آباد میں طاقت کے حفظِ مراتب کا خیال رکھتے ہوئے علی الترتیب وزیرِ خارجہ، وزیرِ اعظم، صدرِ مملکت اور آخر میں سپاہ سالارِ پاکستان سمیت وفاقی و صوبائی حکام سے ملاقاتیں کر کے واپس روانہ ہو چکے ہیں، ایرانی صدر کے اسلام آباد میں قیام کے دوران پاکستان اور ایران کے مابین مختلف شعبوں میں تعاون کی آٹھ یادداشتوں پر بھی دستخط ہوئے مگر دونوں ممالک جانتے ہیں کہ ایسی دستاویزات سے تو پہلے بھی دونوں ممالک ایک دوسرے کا دل خوش کرتے آئے ہیں۔
سینئر صحافی وسعت اللہ خان ایرانی صدر کے دورہ پاکستان بارے اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں کہتے ہیں کہ پچھلے ایرانی صدر ڈاکٹر حسن روحانی نے مارچ 2016 میں اسلام آباد کا دورہ کیا تب بڑے میاں صاحب یعنی میاں نواز شریف وزیرِ اعظم تھے۔ اس وقت بھی چھ یاداشتوں پر دستخط کی تقریب سجائی گئی تھی۔ میاں صاحب نے بھی اپنے تئیں حافظ کا شعری حوالہ دیا تھا۔ تب بھی حسن روحانی نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ باہمی تجارت کا حجم اگلے پانچ برس میں پانچ ارب ڈالر تک ہونا چاہیے۔اس دورے کے آٹھ برس بعد بھی تجارت کا حجم ناگفتہ بہ ہے۔ گذشتہ برس ایران نے پاکستان کو 944 ملین ڈالر کا اور پاکستان نے ایران کو 155 ملین ڈالر کا سامان بیچا۔ اس سے کہیں زیادہ تو سرحدی سمگلرز اور ان کے ان داتا آپس میں بانٹ لیتے ہیں۔)
وسعت اللہ خان کے مطابق حسن روحانی کے دورے کے اختتامی بیانیے میں کم ازکم یہ جملہ ضرور تھا کہ گیس پائپ لائن کے منصوبے کو تیزی سے پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے مگر ابراہیم رئیسی کے دورے میں گیس پائپ لائن کا تذکرہ بھی غائب رہا۔ بس اتنا کہا گیا کہ دونوں ممالک ’توانائی‘ کے شعبے میں بھی تعاون کو فروغ دیتے رہیں گے۔شیڈول کے اعتبار سے پاکستان کو اپنے علاقے میں پائپ لائن بچھانے کا کام 2014 میں مکمل کر لینا چاہیے تھا مگر تب پاکستان نے اپنی ’امریکانہ‘ مجبوریوں کے سبب اس منصوبے کی تکمیل میں دس برس توسیع کی درخواست کی۔ یہ دس برس بھی اس سال مارچ میں مکمل ہو گئے۔درمیان میں ایران اتنا جزبز ہوا کہ اس نے ’پاکستانی التوا‘ پر سرکاری میڈیا کے ذریعے اٹھارہ ارب ڈالر ہرجانہ طلب کرنے کے لیے چارہ جوئی کی بلاواسطہ دھمکی دی۔ اس سال فروری میں نگراں حکومت نے بادلِ نخواستہ گوادر تک 80 کلو میٹر پائپ لائن بچھانے کی منظوری دے تو دی مگر اس کے لیے درکار زمین کی خریداری کا کام بھی مکمل نہیں ہے۔ایسا نہیں کہ پاکستان اس منصوبے کو غیر سنجیدگی سے لے رہا ہے۔ پاکستان کو گیس کا شدید بحران درپیش ہے مگر جوں ہی وہ اس بابت تھوڑی بہت جنبش کرتا ہے تو کوئی نہ کوئی واشنگٹن سے کھنکار دیتا ہے کہ شوق سے پائپ لائن بچھاؤ تمہیں دیکھ لیں گے بچہ اور پاکستان کو اچانک یاد آ جاتا ہے کہ عالمی بینک اور آئی ایم ایف میں سب سے زیادہ ووٹنگ شئیرز تو امریکہ کے ہیں۔
وسعت اللہ خان کے بقول کچھ لال بجھکڑ کہتے ہیں کہ جس طرح انڈیا نے روس یوکرین بحران کے باوجود روسی تیل خریدنے کے لیے امریکہ سے استثنٰی لے لیا اسی طرح پاکستان بھی توانائی کے بحران کا مرثیہ پڑھے تو ہو سکتا ہے امریکہ تھوڑا بہت ترس کھا لے مگر لال بھجکڑ بھول جاتے ہیں کہ ایک تو پاکستان انڈیا یا اسرائیل نہیں۔دوم یہ کہ ایسے وقت جب کہ ایران اور اسرائیل میں کانٹے کا میچ چل رہا ہے اگر پاکستان اپنی توانائی فائل امریکہ کو پیش کرے تو فائل بوم رینج میں بھی بدل سکتی ہے چنانچہ صبر کے سوا کوئی چارہ نہیں۔جس وقت امریکہ کی افغانستان میں گوٹ پھنسی ہوئی تھی اور اسے پاکستان کی ضرورت تھی تب پاک ایران گیس پائپ لائن کے لیے امریکی استثنٰی ملنے کے امکانات زیادہ تھے مگر اس موقع پر بھی پاکستان اپنی سودے بازی کی پوزیشن کو مروتاً استعمال نہ کر پایا۔البتہ چار ماہ قبل پاکستان اور ایران کی قیادت نے جس چابک دستی سے تیزی سے بڑھتی ہوئی باہمی کشیدگی کو سنبھالا اور میڈیا نے جس طرح جلتی کو بڑھاوا دینے سے پرہیز کیا اور پھر کبھی اس کشیدگی کا حوالہ نہ دیا اس کی داد دینا تو بنتا ہے۔
وسعت اللہ خان کے مطابق ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی خواہش تھی کہ وہ پاکستانی پارلیمنٹ سے خطاب کریں بلکہ انھوں نے اپنے دورۂ لاہور میں بھی کھل کے کہا کہ وہ یہاں کے عوام سے براہِ راست بات کرنا چاہتے ہیں مگر وہ حالات کی نزاکت کو سمجھ سکتے ہیں۔شاید ان ہی کے کسی اہلکار نے انھیں سمجھا دیا ہو گا کہ یہاں پاکستانی عوام سے براہِ راست خطاب کی ایک مثال ہے جب صدر بل کلنٹن 25 مارچ دو ہزار کو پانچ گھنٹے کے لیے امریکی سکیورٹی اہلکاروں کے محاصرہ زدہ اسلام آباد میں دلی سے اس شرط پر تشریف لائے تھے کہ پرویز مشرف سے ہاتھ ملانے کی کوئی تصویر نہیں بنے گی اور پھر وہ پاکستانی ٹی وی پر اپنی نشری تقریر میں دہشت گردی کے موضوع پر ڈانٹ ڈپٹ کر کے روانہ ہو گئے۔
وسعت اللہ خان کے مطابق معزز ایرانی صدر کے دورے سے لاہور اور کراچی کو فوری فائدہ تو یہ ہوا کہ صوبائی حکومتوں نے دونوں شہروں کے عوام کو ’بے آرامی‘ سے بچانے کے لیے ایک دن کی کاروباری چھٹی دے دی۔ تاجر پکار رہے ہیں کہ کاروباری سرگرمی کو اس چھٹی سے جتنا نقصان ہوا۔ وہ پاک ایران سالانہ تجارت کے حجم سے بھی زیادہ ہے۔ٹریفک جام میں پھنسے ایک بدتمیز کا تو یہ تک کہنا تھا کہ کیا فائدہ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور ایجنسیوں پر اربوں روپے سالانہ خرچ کرنے کا اگر صرف ایک غیر ملکی
مہمان کی سلامتی کے لیے دو بڑے شہر مکمل طور پر بند کرنے پڑ جائیں۔