پاکستان صحافیوں کے لیے خطرناک ترین ملک: ایک سال میں 11 قتل
پپرس میں واقع صحافیوں کی عالمی تنظیم رپورٹرز ود بارڈرز نے پاکستان کو غزہ کے بعد رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کیلئے خطرناک ترین ملک قرار دے دیا ہے جہاں 11 صحافیوں کو صرف سال 2024 میں قتل کر دیا گیا۔ اسی لیے آزادی صحافت کے انڈیکس میں پاکستان اس وقت گرتا ہوا 152ویں نمبر پر آ چکا ہے۔
آر ایس ایف کا کہنا ہے کہ پاکستان میں کوئی جنگ نہیں ہو رہی لیکن پھر یہ غزہ کے بعد دنیا بھر میں صحافیوں کے لیے دوسرا خطرناک ترین ملک ہے۔ یاد ریے کہ سال کے آخر میں عالمی ادارے صحافتی رینکنگ بتاتے ہعئے سالانہ رپورٹیں جاری کرتے ہیں، جسکا مقصد صحافیوں کو درپیش خطرات سے دنیا بھر کو آگاہی دینا ہوتا ہے۔ اس حوالے سے صحافیوں رپورٹرز ود بارڈر نے بھی اپنی رپورٹ جاری کی ہے اور سی پی جے بھی مسلسل صحافیوں کو درپیش خطرات سے آگاہ کر رہا ہے۔
اس بارے خاتون صحافی جویریہ صدیق کا کہنا ہے کہ میرے مرحوم شوہر سینئیر صحافی ارشد شریف کا کیس سپریم کورٹ میں التوا کا شکار ہے، اسلیے میں نے ہائی کورٹ میں درخواست دائر کرنے کا فیصلہ کیا اور سوچا کہ ساتھ میں ان صحافیوں کے کیسز کو بھی شامل کر لیا جائے، جنہیں 2024 میں بہیمانہ طریقے سے قتل کیا گیا۔
جویریہ صدیق کا کہنا ہے کہ بہت سے صحافیوں کے اہل خانہ وسائل نہ ہونے یا خوف کی وجہ سے چپ سادھ لیتے ہیں، کچھ دور دراز کے علاقوں میں رہتے ہیں اور ان کی رسائی اسلام آباد تک نہیں ہو پاتی، اس لیے میں نے سوچا کہ ان کے نام بھی اپنی پٹیشن میں شامل کر لوں تاکہ ان مقتول صحافیوں کے انصاف کے لیے بھی کچھ ہو سکے۔
جویریہ صدیق بتاتی ہیں کہ انہوں نے ایڈووکیٹ اظہر صدیق کے توسط سے ارشد شریف اور دیگر صحافیوں کے حوالے سے ایک درخواست اکتوبر میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کی تھی۔ لیکن معلومات اکٹھا کرتے وقت وہ ششدر رہ گئی کیونکہ پاکستان میں کوئی جنگ نہیں ہو رہی لیکن پھر بھی کتنے ہی صحافی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
رپورٹرز ود بارڈرز کے مطابق اس وقت اسلام آباد ہی صحافیوں کے لیے سب سے زیادہ غیر محفوظ ہے۔ سینئیر صحافی اسد طور اور مطیع اللہ جان کو اغوا کر کے تشدد کا نشانہ، عامر میر اور عمران شفقت کو پیکا کے بدنام زمانہ قانون کے تحت گرفتار کیا گیا۔ ان پر حملے ہوئے اور انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی دی گئیں۔ صحافیوں پر آن لائن حملے اور کیسز ان کے علاوہ ہیں۔ ٹرولز مرد صحافیوں کو لفافہ اور خواتین صحافیوں کو بدکردار کہہ کر مخاطب کرتے ہیں، جس کی وجہ سے بہت سے صحافیوں نے اپنا سوشل میڈیا کا استعمال کم کر دیا ہے اور اپنے کمنٹس سیکشن بند کر دیے ہیں۔
سینیئر صحافیوں کا کہنا ہے کہ ریاست کی جانب سے دھمکیاں، ہراسانی، جھوٹے کیسز، گرفتاریاں، اور سینسر شپ اب ایک روٹین بن چکے ہیں۔ اسی لیے عالمی رینکنگ میں تنزلی کے بعد آزادی صحافت کے انڈیکس میں پاکستان اب 152ویں نمبر پر ہے۔
یاد ریے کہ 2024 میں مارچ میں رحیم یار خان میں صحافی جام صغیر احمد کو قتل کیا گیا۔ اپریل میں پاک پتن سے تعلق رکھنے والی صحافی نوشین رانا کی مسخ شدہ لاش ملی۔ یوم صحافت تین مئی کو صحافی صدیق مینگل کو بم دھماکے میں نشانہ بنایا گیا۔ وہ خصدار پریس کلب کے صدر تھے۔
مئی ہی کے مہینے میں صحافی اشفاق سیال کو مظفر گڑھ میں قتل کر دیا گیا۔ مئی کے مہینے میں ہی شمالی وزیرستان میں صحافی کامران داوڑ کو نشانہ بنایا گیا اور صحافی نصراللہ گڈانی کو گھوٹکی میں نشانہ بنایا گیا۔ نصراللہ گڈانی کراچی میں دوران علاج دم توڑ گئے تھے۔
جون کے مہینے میں صحافی ظفر اقبال کو لودھراں اور صحافی خلیل جبران کو لنڈی کوتل میں قتل کیا گیا۔ جولائی میں نوشہرہ میں صحافی حسن زیب کو قتل کر دیا گیا۔ اگست میں گھوٹکی کے مقام پر صحافی بچل گھنیو کو اور ستمبر میں نثارلہڑی کو مستونگ میں نشانہ بنایا گیا۔ 12 دسمبر کو رحیم یار خان میں صحافی ظفر اقبال نائچ کو قتل کر دیا گیا۔ صحافیوں کے تحفظ کی تنظیم سی پی جے کے مطابق پاکستان میں قتل ہونے والے تین صحافیوں کو براہ راست ان کے کام کی وجہ سے قتل کیا گیا۔ باقی کے قتل کی تحقیقات ابھی جاری ہیں۔
اس کے علاوہ مقدمات کا سامنا کرنے والوں، ایف آئی اے طلبی، جیل جانے والے صحافیوں کی فہرست بھی طویل ہے۔ ڈیرہ غازی خان میں صحافی شیر افگن بزدار اور صحافی غلام مصطفیٰ کو ایک ماہ جیل کاٹنا پڑی۔ صحافی احسان اللہ نسیم کو پی ٹی ایم کے جرگے کی کوریج کی پاداش میں گرفتار کر لیا گیا۔ صحافی زاہدہ راؤ نے اسلام آباد میں کوریج کے دوران پولیس کی طرف سے بدسلوکی سہی۔ یوٹیوبرز خاص طور پر اشرافیہ کے نشانے پر ہیں۔ اس کے علاوہ جلسوں دھرنوں مظاہروں میں بھی صحافی تشدد کا نشانہ بن رہے ہیں۔
یونیسکو کے مطابق دنیا بھر میں صحافیوں کے قتل کے 85 فیصد مقدمات حل طلب ہیں اور ان میں قاتلوں کو سزا نہیں ہوئی۔ پاکستان کی طرف دیکھیں تو حکومت ایک سال سے صحافی ارشد شریف کے قتل کے حوالے سے کینیا کے ساتھ ہونے والے ایم ایل اے کو لٹکائے جا رہی ہے اور ہر بار عدالت سے وقت لینے میں بھی کامیاب ہو جاتی ہے۔
جو صحافی قتل ہو گئے ان کے لیے انصاف دور کی بات ہے، جو زندہ ہیں ان کی زندگی بھی اجیرن بنائی جا رہی ہے۔ حکومت صحافیوں کی مشکلات سے پردہ پوشی کر رہی ہے اور عدالتیں، صحافتی یونیز بھی خاموش ہیں۔ ایسے حالات کب تک رہیں گے، یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔