پاکستان کی پولیس اور عدلیہ نے کرپشن میں ٹاپ کیسے کیا؟
دنیا بھر میں کرپشن پر نظر رکھنے والے ادارے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے پاکستان کی پولیس اور عدلیہ کو ملک کے بدعنوان اداروں میں سرفہرست قرار دے دیا ھے۔ عدلیہ میں رشوت کا ریٹ سب سے زیادہ ھے جبکہ صوبوں میں کے پی کے رشوت خوری میں ٹاپ پر ھے ۔سینئر صحافی انصار عباسی کی ایک رپورٹ کے مطابق ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی پاکستانی شاخ نے 9 دسمبر کو اپنا قومی کرپشن کا تناظری سروے 2023 جاری کردیا جس سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان میں پولیس سب سے زیادہ کرپٹ ہے دوسرے نمبر پر ٹھیکے دینے اور کٹریکٹ کرنے کا شعبہ اور عدلیہ کرپشن میں تیسرے نمبر پر ہے۔
تعلیم اور صحت کے شعبے بالترتیب چوتھے اور پانچویں کرپٹ ترین شعبے ہیں۔ مقامی حکومتیں، لینڈ ایڈمنسٹریشن اینڈ کسٹم، ایکسائز اور انکم ٹیکس بالترتیب چھٹے، ساتویں اور آٹھویں کرپٹ ترین ادارے ہیں۔ پبلک سروس ڈیلیوری کی شرائط کے مطابق عدلیہ میں رشوت کا اوسط ریٹ سب سے زیادہ یعنی 25 ہزار 846 روپے ہے۔ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ خیبر پختونخوا میں اوسط رشوت سب سے زیادہ رہی اور جو ایک لاکھ 62 ہزار روپے تک رہی ۔ پنجاب میں شہریوں نے زیادہ سے زیادہ رشوت 21 ہزار186 روپے ادا کی اور یہ بھی پولیس کو دی جبکہ بلوچستان میں صحت کی سہولتوں کےلیے زیادہ سے زیادہ اوسط رشوت دی گئی جو کہ 1 لاکھ 60 ہزار روپے تھی۔
این سی پی ایس 2023 کے مطابق 68 فیصد پاکستانیوں کو یقین ہے کہ نیب، ایف آئی اے اور اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ جیسے ادارے سیاسی شکار کیلیے استعمال کیے جاتے ہیں۔60 فیصد پاکستانی قومی سطح پر محسوس کرتے ہیں کہ نیب، ایف آئی اے، اے سی ای اور محتسب جیسے احتسابی ادارے ختم کردینے چاہئیں کیونکہ وہ بدعنوانی کا خاتمہ کرنے میں ناکام رہے ہیں۔سروے کے مطابق قومی سطح پر 75 فیصد شہری سمجھتے ہیں کہ پرائیویٹ سیکٹر کے پاس بہت طاقت اور اثر ورسوخ ہے جس سے کرپشن ہوتی ہے۔ 36 فیصد شہری اکثریت کا خیال ہے کہ انسداد بدعنوانی کے اداروں کا کردار ’ غیر موثر ‘ رہا ہے۔
قومی سطح پر کرپشن کے بڑے مقدمات میں 40 فیصد میرٹ کی کمی سے متعلق ہیں ۔ صوبائی سطح پر سندھ میں 42 فیصد، خیبر پختونخوا میں 43 فیصد، بلوچستان میں 47 فیصد افراد سمجھتے ہیں کہ میرٹ پر کام نہیں ہوتے۔ پنجاب میں 47 فیصد سمجھتے ہیں کہ بیوروکریسی ریاستی اداروں کو اپنے ذاتی مفاد کے لیے استعمال کرتی ہے اور یہی پاکستان میں کرپشن کی بڑی وجہ ہے۔
کرپشن کو کچلنے کے اقدامات سے متعلق 55 فیصد پاکستانیوں کا کہنا ہےکہ قومی سطح پر حکومت کو فوری طور پر سرکاری افسران کے اثاثوں کا اظہار اپنی ویب سائٹس پر انکشاف یقینی بنانا چاہیے اور 45 فیصد کا خیال ہے کہ احتساب عدالتوں کو کرپشن کے مقدمات 30 دن اندر بھگتانے چاہئیں۔ قومی سطح پر 47 فیصد پاکستانی سمجھتے ہیں کہ کرپشن پاکستان کی ترقی کا راستہ روکنے کی بڑی وجہ ہے۔ 62 فیصد پاکستانیوں کا خیال ہے کہ کرپشن اور غیر اخلاقی افعال ماحولیاتی تباہی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو بڑھانے کی وجہ ہیں، 67 فیصد محسوس کرتے ہیں کہ صوبائی اور مقامی حکومتیں ماحولیاتی پالیسیاں بناتے ہوئے ان کے خیالات کو اہمیت نہیں دیتیں۔ قومی سطح پر 76 فیصد پاکستانیوں نے کبھی رائٹ ٹو انفارمشین کے تحت کوئی درخواست نہیں دی۔
گزشتہ 23 برس میں 8 مرتبہ کرپشن پرسیپشن سروے کیا گیا ہے این سی پی ایس 2023 کا پرسیپشن لیول پاکستانیوں کے تاثرات پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس تنظیم نے یہ سروے اپنی پارٹنر آرگنائزیشنز کے تعاون سے چاروں صوبوں میں
محسن نقوی نےآن لائن لرننگ ڈرائیونگ لائسنس ایپ کا آغازکردیا
13 اکتوبر 2023 سے 31 اکتوبر 2023 تک 1600 شہریوں سے کیا تھا