پاکستان اور افغانستان میں کشیدگی بڑھنے کا خطرہ کیوں؟
خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں عسکریت پسندوں کے حملے میں 23 پاکستانی فوجیوں کی شہادت کے فوری بعد پاکستان کے سیکرٹری خارجہ نےافغانستان میں برسرِ اقتدار طالبان کی عبوری حکومت کے پاکستان میں ناظم الامور کو دفتر خارجہ طلب کیا اورفوج پر حملے کے خلاف احتجاج ریکارڈ کرایا۔یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ پاکستان نے افغانستان کی حکومت سے دہشت گردی کے حوالے سے باضابطہ احتجاج کیا ہو۔ تاہم منگل کے پاکستان کی جانب سے جاری ڈی مارش میں سخت زبان استعمال کی گئی اور طالبان کی عبوری حکومت کے سامنے مطالبات بھی رکھے گئے۔حالیہ عرصے میں یہ پہلا موقع ہے کہ پاکستان کے سیکریٹری خارجہ نے افغان ناظم الامور کو باضابطہ طلب کرکے احتجاج کیا ہو ۔ بعض مبصرین کے مطابق اس سے صورتِ حال کی سنگینی ظاہر ہوتی ہے۔قبل ازیں پاکستان نے کئی مواقع پر افغان سرزمین کے دہشت گردی میں استعمال ہونے پر طالبان حکومت سے دفترِ خارجہ کے افسران کی سطح پر احتجاج کیا تھا۔
خیال رہے کہ خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں 12 دسمبر کو سکیورٹی فورسز کی چیک پوسٹ پر حملے میں 23 اہلکار نشانہ بنے تھے۔اس حملے کی ذمہ داری ایک غیر معروف تنظیم ’تحریک جہاد پاکستان‘ نے قبول کی جو کہ دفترِ خارجہ کے بیان کے مطابق ’تحریکِ طالبان پاکستان‘ یعنی ٹی ٹی پی سے وابستہ ایک دہشت گرد گروپ ہے۔مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی جانب سے سخت رویہ ظاہر کرتا ہے کہ افغان طالبان اسلام آباد کے تحفظات کو دور نہیں کررہے جس سے مستقبل میں دونوں ملکوں کے تعلقات میں بگاڑ پیدا ہوگا۔
افغان امور کے تجزیہ کار طاہر خان کہتے ہیں کہ پاکستان کے دفتر خارجہ نے اعلیٰ سطح پر احتجاج کیا ہے جوکہ اسلام آباد کے غصے اور شدت کو ظاہر کرتا ہے۔ملک میں ہونے والی دہشتگردانہ کارروائیوںکے بعد پاکستان کی تشویش بڑھ رہی ہے کہ افغان طالبان انٹیلی جنس معلومات کی فراہمی کے باوجود اپنی سرزمین استعمال ہونے سے روکنے میں ناکام رہے ہیں جبکہ پاکستان میں حالیہ عرصے میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ اب ایسا لگتا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی اور سیکیورٹی فورسز پر حملوں کے بعد حکومت براہِ راست افغانستان کا نام لے گی۔
طاہر خان کے مطابق دفترِ خارجہ کا منگل کا بیان ماضی سے کچھ مختلف ہے جس میں سخت الفاظ کا چناؤ کیا گیا ۔ سیکریٹری خارجہ کا افغان ناظم الامور سے احتجاج کرنا صورتِ حال کی سنگینی کو ظاہر کرتا ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان سفارتی سطح پر باضابطہ تعلقات تو نہیں ہیں۔ لیکن عملی طور پر پہلے سے معطل تعلقات موجود ہیں اور یہ صورتِ حال انہیں مزید خرابی کی طرف لے جائے گی۔
سابق سفیر میاں ثناء اللہ کہتے ہیں کہ پاکستان کو یقین تھا کہ طالبان اقتدار میں آنے کے بعد ٹی ٹی پی کی پاکستان مخالف سرگرمیوں کو ختم کریں گے تاہم ایسا نہیں ہوا۔اسلام آباد نے یہ غلطی کی کہ دوحہ مذاکرات اور افغانستان سے امریکی انخلا کے وقت طالبان کی سفارتی مدد کی کیوں کہ طالبان دوحہ معاہدے اور ماسکو فارمیٹ میں کرائی گئی یقین دہانیوں سے پیچھے ہٹ رہے ہیں۔سابق سفارت کار نے کہا کہ پاکستان کی حکومت مستقبل کے بارے میں تشویش میں مبتلا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں دونوں ملکوں کے درمیان حالات مزید خراب ہوں گے۔
خیال رہے کہ پاکستان میں حالیہ دنوں میں ملک کے مختلف حصوں میں دہشت گردی کے واقعات اور سیکیورٹی اہل کاروں کی ہلاکت پر تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔پاکستان میں دہشت گردی اور سیکیورٹی فورسز پر حملوں میں اضافہ ایسے وقت میں ہوا ہے کہ جب ملک میں عام انتخابات کی تاریخ کو دو ماہ سے کم عرصہ رہ گیا ہے۔
تجزیہ کار طاہر خان کہتے ہیں کہ اگر طالبان پاکستان کے مطالبات نہیں سنتے اور بڑے حملے جاری رہتے ہیں تو یہ صورتِ حال آئندہ عام انتخابات کو متاثر کرے گی۔ سیاسی اجتماعات مسلح گروہوں کے لیے آسان ہدف ہوتے ہیں اور کالعدم ٹی ٹی پی کا سیاسی جماعتوں کے حوالے سے مؤقف
پہلے سے سامنے ہے۔