امریکہ میں پاکستانی سفارت خانے کا افسر عمران کی رہائی کیلئے متحرک

امریکہ میں موجود پاکستانی سفارتخانے کے سرکاری اہلکاروں کی جانب سے ببانگ دہل عمران خان کے حق میں لابنگ کرنے کا انکشاف ہوا ہے۔ امریکہ میں قائم پاکستانی سفارتخانے میں موجود عمرانڈو ٹولے کے اہلکاروں کی جانب سے نہ صرف عمران خان کی رہائی کے حوالے سے باقاعدہ کمپین چلائی جا رہی ہے بلکہ پاکستان کا امریکہ میں تشخص خراب کرنے کے حوالے سے بھی جھوٹا اور بے بنیاد پراپیگنڈا کرنے کا بھی انکشاف ہوا ہے۔ مبصرین کے مطابق فوجی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے اپنے تیار کردہ پراجیکٹ عمران کو انجام تک پہنچانے کے پر عزم دعووں کے باوجود سسٹم میں اب بھی عمرانی باقیات موجود ہیں جو تاحال عمران خان کی مکمل سہولتکاری کرتی دکھائی دیتی ہیں۔
نیا دور کی ایک رپورٹ کے مطابق ہمیشہ سے روایت رہی ہے کہ مختلف ممالک کے سفارت کار دوسرے ممالک میں جا کر جہاں حکومتی ایجنڈے کو آگے بڑھاتے ہیں وہیں اپنے ملک کے مثبت تشخص کے لئے کوشاں بھی دکھائی دیتے ہیں۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ ہر دور میں واشنگٹن کے سفارتخانے میں ایسے کسی نا کسی شخص کا تقرر ہو جاتا ہے جو پیشہ ورانہ سفارتی اصولوں کے برخلاف کارروائی ڈال رہا ہوتا ہے۔
واشنگٹن ڈی سی کے پاکستانی سفارت خانے میں ایسا ہونا کوئی نئی بات نہیں۔ آج کل بھی ایک افسر اس سفارتخانے میں براجمان ہے جس کا سابق وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ لگاؤ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔گذشتہ دنوں چند امریکی صحافیوں کی بیٹھک میں معلوم ہوا کہ پاکستانی سفارتخانے کا یہ افسر سابق وزیر اعظم عمران خان کی لابنگ کرنے میں گزشتہ ایک سال سے مصروف ہے اور سفارتخانے میں اعلی حکام اس حوالے سے بالکل بے خبر ہیں۔
نیا دور کی رپورٹ کے مطابق امریکی صحافیوں سے گفتگو میں معلوم ہوا کہ یہ صاحب ایک سال سے امریکی صحافیوں پر زور ڈالتے رہے ہیں کہ عمران خان کے حق میں کالم لکھے جائیں اور رپورٹنگ کی جائے۔ امریکی صحافیوں کا یہ دعویٰ ہے کہ جب بھی سابق وزیر اعظم کے حق میں کوئی قرارداد منظور ہوتی ہے یا کوئی امریکی عہدیدار سوشل میڈیا پر بیان داغتا ہے تو یہ افسر امریکہ میں مقیم صحافیوں کو معلومات بھجواتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس پر رپورٹنگ کی جائے۔
نیا دور کی رپورٹ کے مطابق جب اس خبر کی حقانیت کو جانچنے کیلئے متعلقہ امریکی رپورٹرز کے واٹس ایپ پیغامات کا جائزہ لیا گیا تو حقیقت کھل کر سامنے آ گئی کہ کس طرح پاکستانی سفارتخانے میں براجمان ایک سرکاری ملازم کھلم کھلا ایک سیاسی پارٹی کے حق میں لابنگ کر رہا ہے جب کہ سرکاری ملازمین پابند ہوتے ہیں کہ وہ سیاست میں حصہ نہیں لے سکتے۔
سوشل میڈیا پر شاہزیب خانزادہ سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیوں ہونے لگا؟
جہانزیب علی کے بقول جب اس معاملے کی مزید کھوج لگائی گئی تو معلوم ہوا کہ پاکستانی سفارتخانے کا یہ افسر بہادر پاکستان تحریک انصاف کے کارکنان کے ساتھ بھی مسلسل رابطے میں ہے اور ان کو اپنے مشوروں سے بھی نوازتے رہتا ہے۔اس حوالے سے مزید معلوم ہوا ہے کہ یہ افسر کچھ پارٹ ٹائم صحافیوں کو عمران خان کے حوالے سے امریکی محکمہ خارجہ اور وائٹ ہائوس میں سوالات کرنے کے لئے بھی اکساتا رہا ہے لیکن اسے اس میں کامیابی نہیں مل پائی کیونکہ یہ پارٹ ٹائم صحافی وائٹ ہائوس اور وزارت خارجہ جیسی اہم جگہوں پر جانے سے گھبراتے ہیں کیونکہ ایک طرف ان کی اپنی غیر صحافتی مستقل نوکریوں کی وجہ سے ان کے پاس وقت نہیں ہوتا اور دوسرا ایسے سوال کرنے پر ان کا سفارتخانے میں داخلہ بھی بند ہو سکتا ہے۔ لکھاری کے مطابق کچھ روز قبل ایک پاکستانی صحافی نے دوسری مرتبہ امریکی محکمہ خارجہ کی نئی ترجمان ٹیمی بروس سے عمران خان کے حوالے سے سوال کیا اور انہیں کوئی جواب نہیں ملا مگر یہ ضرور کہا گیا کہ امریکا دوسرے ملکوں کے معاملات میں نہ دخل اندازی کرتا ہے اور نہ آئندہ کرے گا۔
نیا دور کی رپورٹ کے مطابق اکثر اوقات پاکستانی افسران کا مغربی ممالک سے واپس جانے کا دل نہیں کرتا اور وہ مسلسل اسی کوشش میں جٹے رہتے ہیں کہ انہیں کسی طرح یہاں مستقل رہائش کا اختیار مل جائے۔ اطلاعات ہیں کہ امریکہ میں عمران خان کے حق میں لابنگ کرنے والے سرکاری اہلکار بھی کچھ ایسے ہی ارادے رکھتے ہیں۔ جہانزیب علی کے بقول امریکہ یا کسی بھی مغربی ملک میں سکونت اختیار کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ریاست اور فوج کے خلاف خوب پراپیگنڈا کرو اور پھر اپنی مظلومیت کا ڈھول پیٹو۔ یہ داؤ آج کل آسانی سے لگ بھی جاتا ہے۔ تاہم دیکھتے ہیں کہ امریکہ میں موجود انصاف پسند افسر اپنے امریکہ مشن میں کامیابی حاصل کر پائیں گے یا نہیں۔