پاکستانی فلم انڈسٹری کا نیچرل فقرہ باز کامیڈین لہری

پاکستانی فلم انڈسٹری کے معروف اداکار لہری کو اپنی فی البدیہہ مزاحیہ فقرے بازی کی وجہ سے ایک نیچرل کامیڈین کہا جاتا ہے۔ لہری کا اصلی نام سفیر اللہ صدیقی تھا۔ لہری پیدائشی طور پر بذلہ سنج اور جملہ باز تھے اور ان کی یہ صلاحیت تب تک قائم رہی جب تک وہ ہوش میں رہے۔ شوگر کی زیادتی کی وجہ سے زندگی کے آخری دنوں میں ان کے دونوں گھٹنے کاٹ دیے گئے تھے، دل کے عارضے کے باعث ان کی اوپن ہارٹ سرجری کے علاوہ پروسٹیٹ کا آپریشن بھی ہوا لیکن ان تمام طبی پیچدگیوں کے باوجود لہری صاحب کی زندہ دلی برقرار رہی۔

لہری 2 جنوری 1929 کو ہندوستان کے علاقے کانپور میں پیدا ہوئے جو معروف کامیڈین معین اختر کا بھی شہر تھا۔ لہری 18 سال کی عمر میں قیام پاکستان کے وقت اپنے خاندان کے ساتھ کراچی آ کر آباد ہوئے۔ ان کے سب سے چھوٹے بیٹے مہران سفیر نے بتایا کہ ابا جان اداکار بننے سے پہلے ٹائپسٹ اور سٹینو گرافر تھے۔ ’وہ بتاتے تھے کہ ٹائپنگ کرتے ہوئے میری سپیڈ بہت زیادہ تھی، اُدھر میرے باس لفظ اور جملہ ادا کرتے اِدھر میں جملہ چھاپ کر فل سٹاپ لگا دیا کرتا تھا۔ انھوں نے اپنے کیریئر کا آغاز ون مین شو سے کیا۔ ایک شو سے انھیں 30 روپے ملتے تھے جسے وصول کرنے کے بعد لہری کو اس دن مزید پیسے کمانا پسند نہیں تھا۔ انھیں اپنے لیے فلموں میں کام کرنا بھی پسند نہیں تھا لیکن جب فلم انڈسٹری کا حصہ بنے تو بہترین کامیڈین کے 11 ایوارڈ اپنے نام کیے۔ یہ لہری صاحب کا ایک منفرد ریکارڈ ہے جسے کوئی دوسرا توڑ نہیں سکا۔ جن فلموں کے لیے انھیں ایوارڈ دیے گئے ان میں دامن، پیغام، کنیز، میں وہ نہیں، صاعقہ، نئی دلہن، انجمن، دل لگی، آج اور کل، نیا انداز، صائمہ اور بیوی ہو تو ایسی شامل رہیں۔

ایک مرتبہ لہری صاحب نے سینئر ٹی وی ہوسٹ مہتاب چنا کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ ’اداکار ابو شاہ ان کے دوست تھے جو باریش تھے اور فلموں میں فرشتہ یا اس سے ملتے جلتے نیک و کار انسان کا کردار کیا کرتے تھے لیکن اپنی ذاتی زندگی میں وہ فرشتہ صفات کی ضد تھے۔ لہری نے بتایا کہ ابو شاہ نے کہا کہ انڈیا سے بہت بڑا ڈائریکٹر آیا ہے او پی دتہ اور وہ فلم ’ٹیکسی ڈرائیور‘ کی ہیروئن شیلا رحمانی کے ساتھ ایک فلم بنا رہا ہے۔ شیلا پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں سیکس سمبل کے طور پر مشہور تھیں۔ لہری صاحب نے بتایا کہ ’میں نے سوچا مجھے فلم سے تو کوئی دلچسپی نہیں لیکن شیلارحمانی کو قریب سے دیکھنے کا موقع مل جائے گا۔ ابو شاہ کے ساتھ ایک فلمی دفتر گیا جہاں سٹاف کھانا کھانے میں مصروف تھا۔ انھوں نے کھاتے کھاتے مجھ سے پوچھا آپ کیا بیچتے ہیں؟ میں نے کہا کہ آپ ’تناول ماحضر‘ فرما رہے ہیں اور میں بیچنا شروع کر دوں اچھا نہیں لگتا۔ فلمی سٹاف کھانا تناول فرما چکا تو میں نے اپنی مشہور آئٹم ’مریضِ عشق‘ سنائی، وہ سب خاموش بیٹھے رہے۔ میں سمجھ گیا یہ بدتمیزی کر رہے ہیں، میں نے پینترے بدلے اور بالآخر شیلا رحمانی کو دیکھنے کا بندوبست ہو گیا یعنی ہمیں فلم میں کام مل گیا۔

بھارتی اداکارہ کی نسیم شاہ کی ویڈیو شیئر کرنے کی تردید

لہری صاحب کو فلموں میں کراچی سے لاہور لانے کا سہرا پنجابی فلموں کے ولن تایا الیاس کشمیری کے سر ہے۔ اداکارہ نشو لہری کے ساتھ کام کرنے کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’لہری صاحب کے ساتھ کام کرتے ہوئے مشکل یہ پیش آتی تھی کہ وہ اچانک کوئی بات کر دیتے تھے اور ہنسی روکنا مشکل ہو جاتی تھی۔‘ وہ بتاتی ہیں ’ہدایتکار اسلم ڈار کی فلم ’زبیدہ ‘ میں میرے ہیرو وحید مراد تھے اور میں ان کی سٹینو گرافر بنی تھی۔ فلم کے ایک منظر میں، میں نے سفید ساڑھی پہنی ہوتی ہے اور میں دفتر میں سو جاتی ہوں۔ لہری صاحب مجھے دیکھ کر فقرہ چست کرتے ہیں۔ ’اصلی ہے یا ماربل کی بنی ہوئی ہے۔ یقین جانیے میرے لیے یہ سین کرنا مشکل ہو گیا تھا، جونہی لہری صاحب اپنے خاص انداز سے ’ماربل‘ پر زور دے کر ڈائیلاگ بولتے تھے میری ہنسی یوں نکلتی جیسے سوڈے کی بنٹے والی بوتل دھماکے سے کھلتی تھی۔ اداکارہ نشو کا کہنا تھا کہ لہری صاحب کے ساتھ انھوں نے کئی ایک فلمیں کیں جن میں ’بہشت‘ اور ’نیک پروین‘ یاد گار تھیں۔

لہری صاحب کے ہاں پانچ بیٹے اور تین بیٹیاں پیدا ہوئیں جن میں سےدو وفات پا گئیں۔ لہری صاحب کے سب سے چھوٹے بیٹے مہران سفیر صدیقی نے بتایا کہ معین اختر ایسے فنکار تھے جو وقتاًفوقتاً ان کی خیریت دریافت کرنے آتے رہے۔ ان کے علاوہ عمر شریف، جاوید شیخ، تحسین جاوید، بہروز سبزواری، اداکارہ شبنم اور اداکار ندیم بھی ان کی خیریت دریافت کرنے آتے تھے۔

مہران سفیر صدیقی نے بتایا کہ 2011 میں سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف ابا کی تیمارداری کے لیے ہمارے گھر آئے تو ابا نے انھیں بہت ہنسایا۔ نواز شریف صاحب نے ابا سے کہا کہ وہ ان کے بڑے پرستار ہیں۔ ہیروئنز کے مختصر کپڑوں پر طنز کرتے ہوئے لہری نے میاں نوازشریف سے کہا کہ۔۔۔ وہ خاتون باریک جالی نما لباس پہن کر آ گئیں، مجھ سے پوچھا کہ کیسی لگ رہی ہوں؟ میں نے کہا کہ آپ جہاں سے گزریں گی مچھر کٹھمل مرے نہ مرے شرافت کے جراثیم ضرور مر جائیں گے۔ لہری صاحب کا یہ چٹکلا سن کر میاں نواز شریف اور ان کے ساتھی قہقہے لگانے لگے۔ اس پر لہری صاحب نے کہا کہ۔۔۔ میاں صاحب باتیں بہت ہو گئیں اب ایک چیک پر سائن کر دیں جس پر نواز شریف نے ابا کے لیے اسی وقت 25 لاکھ روپے کے چیک پر سائن کیے۔مہران بتاتے ہیں کہ چیک وصول کرتے ہوئے لہری کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے تھے۔ انھوں نے کہا کہ پرستار اور حکمران ساری زندگی میری باتوں پر قہقہے تو لگاتے رہے لیکن کسی نے بھی اس طرح داد نہیں دی جیسے میاں نواز شریف نے اپنے ذاتی خزانے کو نقصان پہنچایا۔

Back to top button