کیاپاکستانی سیاست میں سب سے اہم عنصر فوج ہے؟
اس برس پاکستان کے سیاسی افق پر کئی تبدیلیاں سامنےآئیں اور کئی اہم سیاستدانوں نے اپنی قسمت کو بدلتے دیکھا۔ آئندہ سال انتخابات کا سال ہے اور اس کے لئے بھی سیاسی جوڑ توڑ جاری ہے ۔ لیکن مبصرین سمجھتے ہیں کہ ملک کے سیاسی منظر نامے میں فوجی اسٹبلشمنٹ اب بھی ایک طاقتور عنصر ہے ۔ اور رواں سال میں اس کے بہت سے مظاہر سامنے آئے ہیں۔
وائس آف امریکہ کی ایک رپورٹ کے مطابق ایک ایسے وقت میں جب پاکستان کے ایک سابق وزیر اعظم عمران خان بدعنوانی کے الزام میں جیل چلے گئے اور ان کی قانونی مسائل میں اضافہ ہوا۔۔ایک دوسرے وزیر اعظم یعنی نواز شریف، جو بدعنوانی کے مقدمات میں سزا یافتہ ہیں ، چار سال بعد ملک واپس لوٹے اور انہوں نے اپنی قانونی پریشانیوں کو غائب ہوتے دیکھا ہے۔
سابق وزیراعظم نواز شریف، جو کچھ عرصہ پہلے تک سیاسی مداخلت کے لیے فوج پر تنقید کر رہے تھے، اب تجزیہ کاروں کے مطابق اسی طاقتور ادارے سے مذاکرات کے بعد پاکستان واپس لوٹے ہیں ۔
دوسری طرف سابق وزیر اعظم عمران خان، جو کبھی اعلیٰ عسکری قیادت کے ساتھ اپنی قربت کا دعویٰ کرتے تھے ، انہوں نے اپنی برطرفی اور بڑھتی ہوئی قانونی مشکلات کے لئے انہیں ہی ذمہ دار ٹھہراتے دکھائی دیتے ہیں۔
سیاسی تجزیہ کار عنبر رحیم شمسی کہتی ہیں کہ ملکی سیاسی صوررتحال سے یہ سبق ملتا ہے کہ جو کوئی بھی فوجی اسٹیبلشمنٹ کو کسی بھی طریقے یا شکل میں چیلنج کرتا ہے، چاہے وہ فسادات کے ذریعے ہو، چاہے وہ سیاسی معاملات میں مداخلت کے خلاف مزاحمت کے ذریعے ہو ’اسے کبھی بے دردی سے، کبھی غیر محسوس طریقے سے سیاست سے نکال دیا جائے گا۔ ‘
پاکستانی فوج اس سال اس وقت ایک غیر معمولی حملے کی زد میں آئی جب عمران خان کے حامیوں نے 9 مئی کو اپنے رہنما کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے فوج کے دفاتر اور املاک پر دھاوا بول دیا۔ جس پر
آرمی چیف اور حکومت نے سخت کارروائی کا عزم ظاہر کیا۔ جس کے بعد عمران خان کی پارٹی، تحریک انصاف کے رہنماؤں اور حامیوں کی بڑے پیمانے پر گرفتاریاں عمل میں آئیں ۔
اس کے بعدکم از کم 80 سیاستدانوں نے اعلان کیا کہ وہ پی ٹی آئی یا سیاست کو مکمل طور پر چھوڑ رہے ہیں۔ انہوں نے حیرت انگیز طور پر بالکل ایک ہی جیسی بات کی جس میں فوج کے ساتھ حمایت کا اظہار اور تشدد کی مذمت کی گئی تھی ۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس صورتحال سے خوف وہراس کا ماحول پیدا ہو گیا ہے۔ پاکستان میں عمران خان کا نام اور چہرہ میڈیا سے غائب ہو چکا ہے، اور انہیں عہدے کے لیے نااہل قرار دے دیا گیا ہے۔ عمران خان کی پارٹی فروری 2024 میں ہونے والے عام انتخابات کے لیے آزادانہ طور پر مہم چلانے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے، اور دیگر سیاستدان اب نواز شریف پر اسٹیبلشمنٹ کے پسندیدہ ہونے کا الزام لگا رہے ہیں۔
تجزیہ کاروں کو خدشہ ہے کہ سیاسی نظام پر ووٹروں کا اعتماد ختم ہو رہا ہے۔تاہم مبصرین کے خیال میں اس اعتماد کی بحالی ضروری ہے تاکہ شفاف انتخابات کے ذریعے اقتدار منتخب حکومت کو منتقل کیا جا سکے۔
نومبر میں وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے، پاکستان کے نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ وہ انتخابی مبصرین کو مطمئن کرنا چاہتے ہیں لیکن اگر عوام غیر مطمئن ہیں تو انہیں کوئی فکر نہیں ۔”ہم الیکشن کے بعد اقتدار اگلی منتخب حکومت کے حوالے کر دیں گے، چاہے وہ کوئی بھی ہو۔
باقی سیاسی تنازعات اور بحث چلتی ہی رہے گی۔