پاکستانی مکڑیاں بیرون ملک کروڑوں روپے میں فروخت ہونے لگیں

پاکستان سے نایاب نسل کی زہریلی مکڑیوں کو ادویات میں استعمال کی خاطر کروڑوں کے عوض بیرون ملک فروخت کرنے کا غیر قانونی دھندا سامنے آ گیا، یہ دھندا چلانے کے لیے ملک میں ایک منظم نیٹ ورک موجود ہے جس میں پشاور، اسلام آباد، کراچی اور لاہور کے بڑے بیوپاری نایاب نسل کی زہریلی مکڑیاں خرید کر کروڑوں روپے میں بیرون ملک بھجواتے ہیں، بی بی سی اردو کی ایک رپورٹ کے مطابق محکمہ جنگلی حیات خیبر پختونخوا کے حکام کا کہنا ہے کہ صوبے کے مختلف علاقوں میں ایسے گروہ سرگرم ہیں جو زہریلے بچھو اور چھپکلیوں کے علاوہ نایاب نسل کی مکڑیوں کی غیر قانونی خرید و فرخت میں ملوث ہیں۔
سینٹر سرکل پشاور کے کنزرویٹر افتخار زمان نے بتایا کہ چند دن قبل ایبٹ آباد میں نایاب نسل کی ٹرنٹولا مکڑی سمگل کرنے کی کوشش کرنے والے تین افراد کو گرفتار کیا گیا جن کو وائلڈ لائف ایکٹ 2015 کے تحت ایک لاکھ روپے جرمانہ ہوا، ان کے مطابق پاکستان میں تین اقسام کی مکڑیاں ہیں جن میں بلیک وڈو مکڑی، بلیک مکڑی اور براؤن مکڑی کی مانگ کافی زیادہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان مکڑیوں کو خیبر پختونخوا میں چترال اور مانسہرہ جبکہ پنجاب میں کلرکہار اور چکوال کے پہاڑوں سے پکڑا جاتا ہے، اس کے علاوہ آزاد کشمیر اور بلوچستان کے ٹھنڈے علاقوں میں بھی نایاب نسل کی مکڑیاں پائی جاتی ہیں، جان محمد نے بتایا کہ مکڑی کا ریٹ نسل، وزن اور لمبائی کے حساب سے طے کیا جاتا ہے۔
اگر مکڑی کا وزن 100 گرام تک ہو تو چار سے پانچ کروڑ روپے میں فروخت ہو جاتی ہے اور اگر وزن 200 گرام اور مکڑی کی لمبائی 6 انچ تک ہو تو اسکی دگنی قیمت بھی مل سکتی ہے لیکن اتنے بڑے سائز کی مکڑیاں بہت کم مقدار میں شکاریوں کے ہاتھ آتی ہیں اگر کوئی ان کو پکڑ بھی لے تو اُن کو علاقوں سے باہر لیکر جانا مشکل ہوتا ہے کیونکہ جگہ جگہ سکیورٹی چیک پوسٹ ہوتی ہیں۔
مکڑیوں کی فروخت کے کاروبار سے وابستہ پشاور کے رہائشی جان محمد کے مطابق دو سے ڈھائی انچ اور 20 سے 30 گرام تک کے وزن کی مکڑی پانچ لاکھ روپے جبکہ انتہائی چھوٹے سائز کی مکڑی کے بھی 10 سے 15 ہزار روپے مل جاتے ہیں، جان محمد کے مطابق لوگ زیادہ تر چھوٹے سائز کی مکڑیاں خرید کر کچھ عرصے کے لیے ڈبوں میں رکھ کر مخصوص درجہ حرارت میں پالتے ہیں اور ان کی خوراک کے لیے مارکیٹ سے کیڑے خریدے جاتے ہیں تاکہ ان کا وزن بڑھایا جا سکے۔ نایاب نسل کی مکڑیوں کے لیے گرم آب و ہوا بھی جان لیوا ثابت ہو سکتی ہے۔ اسی لیے جب ان کو سرد علاقوں سے گرم علاقوں میں لایا جاتا ہے تو بیوپاری ٹھنڈے ماحول کا انتظام رکھتے ہیں۔
یہ واضح نہیں کہ مکڑیوں کے اس غیر قانونی کاروبار کے پیچھے اصل عوامل کیا ہیں لیکن پاکستان میں مکڑیوں کے کاروبار سے وابستہ افراد کا دعویٰ ہے کہ ان کے زہر کے حصول کے لیے لوگ ان کو خریدتے ہیں جس کو بعد میں جانب بچانے والی قیمتی ادویات بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
پشاور کے جان محمد کہتے ہیں کہ جن مکڑیوں کی خرید و فروخت کا کاروبار ہوتا ہے وہ انتہائی زہریلی ہوتی ہیں، اُن کہنا تھا کہ خریدار ہمیں صرف اتنا بتاتا ہے کہ ان کے زہر سے دوائی تیار کی جاتی ہے، اُنھوں نے کہا کہ ان کی مانگ امریکہ، یورپی ممالک اور روس میں کافی زیادہ ہے۔
اُن کے بقول بیرون ملک موجود لوگوں کے مقامی ایجنٹ یہاں اُن کے لیے خریداری کرتے ہیں، انھوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ بعض اوقات باہر سے لوگ یہاں آ کر مکڑیوں کو خرید کر اپنے ساتھ ہوائی جہاز میں لے جاتے ہیں، اُن کے مطابق یہ بااثر لوگ ہوتے ہیں اور انہیں روکنے والا کوئی نہیں ہوتا۔
یہ کاروبار منافع بخش بھی ہے اور خطرات سے بھرپور بھی۔ ان میں سے ایک خطرہ اس غیر قانونی کاروبار کا وہ پہلو ہے جس میں فروخت کرنے والا اور خریدار دونوں ہی ایک دوسرے کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔
جان محمد بتاتے ہیں کہ اس کاروبار میں جھوٹ بہت زیادہ بولا جاتا ہے۔ مثلاً جب ہم ایجنٹ کسی کو مکڑی کی ویڈیو بھیجتے ہیں اور اسکا ریٹ 25 لاکھ روپے بتاتے ہیں تو آگے وہ دوسرے خریدنے والے کو 80 لاکھ روپے ریٹ بتاتا ہے اور کہتا ہے کہ مکڑی اس کے پاس موجود ہے۔ انھوں نے بتایا کہ بعض لوگ گاہگ کو دھوکہ دینے کے لیے عام نسل کی مکڑیوں کو کیمیکل کے استعمال سے رنگ بدل کر قیمتی نسل ظاہر کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں جس میں کم تجربہ کار بیوپاری اکثر دھوکہ کھا جاتے ہیں۔
مکڑیوں کی فروخت کے کاروبار سے وابستہ ایک ایجنٹ فرمان اللہ بتاتے ہیں کہ مارچ 2022 میں لاہور سے ایک بندے نے ان کو پانچ سو بلیک ووڈ مکڑیوں کا آرڈر دیا۔جب ہم نے کلرکہار میں ایک شکاری سے بات کی تو اُس نے کہا کہ میرے پاس 200 مکڑیاں موجود ہیں لیکن قیمت ایک کروڑ روپے ہو گی جو ایڈوانس میں ادا کرنی ہوگی، ہمارے پاس 40 لاکھ روپے تھے، ہم نے اُسی حساب سے سودا کیا اور مکڑیوں کو گاڑی میں ڈال کر لاہور پہنچ گئے، لیکن گاہگ نے اپنا موبائل بند کر دیا، کافی دیر انتظار کرنے کے بعد ہم واپس پشاور آ گئے پھر جب ہم نے شکاری کو مال واپس لینے کا کہا تو اس نے بھی انکار کر دیا، ہمیں تو ان کو پالنے کی سمجھ نہیں تھی، لہٰذا ساری مکڑیاں مر گئیں اور ہمارے لاکھوں روپے ڈوب گئے۔
نایاب مکڑیوں کی فروخت کے کاروبار سے وابستہ ایک اور شخص واجد اللہ کا تعلق مانسہرہ کے پہاڑی علاقوں سے ہے،

مہوش حیات کی فلم نے ماہرہ خان کی فلم کو پیچھے چھوڑ دیا

گذشتہ ایک سال سے وہ اپنے علاقے سے نایاب نسل کی مکڑیاں پکڑ کر پشاور میں بیوپاریوں کو بھیجتے ہیں، اُنھوں نے بتایا کہ اس علاقے میں دو تین قسم کی مکڑیاں ہیں جو گھنی گھاس اور ویرانوں میں پائی جاتی ہیں۔
ان کو پکڑنا بہت مشکل کام ہے کیونکہ ایک تو یہ نازک ہوتی ہیں اور دوسرا زہریلی بھی ہوتی ہیں۔ خطرہ ہوتا ہے کہ کہیں یہ پکڑنے والے کو ڈنگ نہ مار دیں۔‘ واجد اللہ کے مطابق ’مکڑی کا شکار کرنے سے پہلے ہاتھ پر پلاسٹک کے دستانے چڑھا کر جال سے مکڑی کو پکڑا جاتا ہے اور پھر اس کو ایک ڈسپوزیبل کپ میں ڈال دیا جاتا ہے جس کے اُوپر سے پلاسٹک میں سوراخ کر دیا جاتا ہے۔‘ اُنھوں نے بتایا کہ اس شکار کے لیے بیوپاریوں سے ایڈونس میں پیسے لیے جاتے ہیں۔ واجد اللہ کا دعویٰ ہے کہ وہ مکڑی کے شکار کے لیے محکمہ جنگلات سے باقاعدہ طور پر لائسنس بھی مانگ چکے ہیں لیکن ان کو انکار کر دیا گیا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ محکمہ جنگلی حیات کے پاس مکڑیوں کے تحفظ کے لیے قانون میں کوئی دائرہ اختیار نہیں۔ تاہم محکمہ جنگلی حیات خیبر پختونخوا کے افتخار زمان کا کہنا ہے کہ ادارے کے پاس تمام جنگلی حیات کے تحفظ کا قانونی اختیار موجود ہے جس میں مکڑیوں کے شکار پر پابندی بھی شامل ہے۔ افتخار زمان کے مطابق ہزارہ ڈویژن کے علاوہ افغانستان کے سرحدی علاقوں سے بھی مکڑیوں کی سمگلنگ کی جاتی ہے اور پورے صوبے میں محکمہ جنگلی حیات کا عملے اس دھندے سے آگاہ ہے لیکن وسائل اور عملے کی کمی ان کے راستے کی ایک روکاٹ ہے۔
اُنھوں نے بتایا کہ مختلف معلومات کی بنیاد پر ادارہ کارروائی کرتا ہے اور قانون کے مطابق ملوث افراد کو تین سال قید اور لاکھوں روپے جرمانہ تک ہو سکتا ہے۔
لیکن دوسری جانب پاکستان میں سوشل میڈیا پر ایسے اکاؤنٹ بھی موجود ہیں جو نایاب قسم کے بچھو، چھپکلیوں اور مکڑیوں کی خرید و فروخت کے لیے چلائے جاتے ہیں تاہم اب تک محکمہ جنگلی حیات نے اس قسم کے آن لائن کاروبار کے خلاف کسی قسم کی کارروائی نہیں کی۔ افتخار زمان کہتے ہیں کہ یہ قانونی طور پر جرم ہے اور اس حوالے سے ان کا ادارہ کسی بھی قسم کی شکایت موصول ہونے کی صورت میں باقاعدہ طور پر ایسے افراد کے خلاف قانونی کارروائی کرے گا۔ جان محمد کہتے ہیں کہ اب پاکستان کے مختلف مقامات پر مکڑیاں پالنے کے رجحان کا آغاز ہو چکا ہے۔
نہ صرف چھوٹی مکڑیوں کو پال کر بڑا کیا جاتا ہے بلکہ افزائش نسل بھی کی جا رہی ہے لیکن یہ انتہائی حساس اور مشکل کام ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ مادہ مکڑی انڈہ دیتی ہے جس کی وجہ سے ان کا وزن آدھے سے بھی کم ہوجاتا ہے۔ ایک انڈے سے ہزار تک چھوٹے بچے پیدا ہوتے ہیں۔ مکڑیوں کو پالنے کے لیے لوگ خوراک کے طور پر کیڑے مارکیٹ سے خرید کر فراہم کرتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ ’مخصوص نسل کے کیڑوں، جن میں پروٹین کی مقدار زیادہ ہوتی ہے، کی بھی فارمنگ ہوتی ہے جو کہ مہنگے داموں فروخت ہوتے ہیں۔ لیکن افتخار زمان نے مکڑیوں کی فارمنگ کے دعوے کو رد کرتے ہوئے کہا کہ مکڑیوں کی فارمنگ نہیں ہو سکتی بلکہ ان کو جنگلات سے پکڑ کر ہی فروخت کیا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ مکڑی فصلوں کو نقصان پہنچانے والے کیڑوں سے محفوظ رکھنے کے لیے انتہائی اہم ہے۔ اگر ان کی تعداد کم ہوتی ہے تو اس سے فصلوں کی پیداواری صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔

Back to top button