بحریہ ٹاؤن کے خلاف کریک ڈاؤن سے پلاٹس خریدنے والے پاکستانی رل گئے

بحریہ ٹاؤن کے سربراہ ملک ریاض حسین کی جانب سے ایک ٹویٹ کے بعد سے بحریہ ٹاؤن کے خلاف ملک بھر میں جو کریک ڈاؤن شروع ہوا تھا اس کے نتیجے میں سب سے زیادہ نقصان ان پاکستانیوں کا ہو رہا ہے جنہوں نے ملک ریاض کے مختلف پروجیکٹس میں زمینیں خرید کر سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ اس کریک ڈاؤن کے نتیجے میں متاثر ہونے والے لاکھوں پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ حکومت بحریہ ٹاؤن کے خلاف جو کارروائی کر رہی ہے اس کا نقصان ملک ریاض سے زیادہ انہیں ہو رہا ہے لہذا اس حوالے سے پالیسی پر نظر ثانی کی جائے۔
یاد رہے کہ کریک ڈاؤن شروع ہونے کے بعد سے بحریہ ٹاؤن کی کراچی، لاہور، تخت پڑی، نیو مری اور اسلام آباد میں واقع ایسی رہائشی اور کمرشل عمارتوں کو بھی سیل کیا جا رہا ہے جو کہ پہلے ہی بک چکی ہیں۔ نیب نے کریک ڈاؤن شروع کرنے کے بعد ایک پریس ریلیز میں شہریوں کو متنبہ کیا تھا کہ وہ بحریہ ٹاؤن کے رہائشی و کمرشل منصوبوں میں سرمایہ کاری سے گریز کریں۔ تاہم سوال یہ ہے کہ وہ لاکھوں پاکستانی کہاں جائیں جو پہلے ہی بحریہ ٹاؤن کے مختلف پروجیکٹس میں جائیدادیں خرید کر سرمایہ کاری کر چکے ہیں۔ اگلے روز راولپنڈی کی احتساب عدالت میں بحریہ ٹاؤن کے مبینہ قبضوں کے کیس کی ابتدائی سماعت کے بعد نیب نے ایک تفصیلی اعلامیہ جاری کیا جس میں کہا گیا کہ نیب نے دیگر سرکاری اداروں کے ساتھ مل کر مفرور ملزمان کو پاکستان واپس لانے کے لیے بھرپور کوششیں شروع کر دی ہیں تاکہ ایسے افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جا سکے۔
واضح رہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشری بی بی کے خلاف 190 ملین پاؤنڈ سکینڈل ریفرنس میں ملک ریاض کو اشتہاری ملزم قرار دیا جا چکا ہے۔ تاہم ملک ریاض خود پر عائد کیے گئے الزامات کی تردید کر چکے ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ان پر اس کیس میں وعدہ معاف گواہ بننے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ نیب کا کہنا ہے کہ بحریہ ٹاون راولپنڈی میں ملک ریاض کی کئی قیمتی جائیدادوں کو سرکاری تحویل میں لیا گیا ہے۔ ضلعی انتظامیہ نے بحریہ ٹاؤن فیز ایٹ میں نوٹسز آویزاں کیے ہیں۔ ضلعی انتطامیہ کے مطابق جائیداد ضبطگی کا حکم اسلام آباد کی نیب کورٹ کی جانب سے دیا گیا تھا۔
بحریہ ٹاون کے فیز ایٹ میں واقعہ پلاٹ نمبر 1351 اور مکان نمبر 1440 پر نوٹس آویزاں کیے گئے ہیں۔ انتظامیہ کا موقف ہے کہ یہ جگہ راولپنڈی کے تخت پڑی جنگل کا حصہ تھی۔ ضلعی انتظامیہ کے مطابق ’رہائش پذیر افراد کو بھی جائیداد ضبطگی کے حوالے سے آگاہ کر دیا گیا۔ ان جائیدادوں کے باہر جو نوٹس چسپاں کیے گئے ہیں ان پر درج ہے کہ ’اس جائیداد میں مداخلت کرنے والوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے گی۔‘ بحریہ ٹاؤن کے ترجمان کرنل ریٹائرڈ خلیل الرحمان نے بتایا کہ انتظامیہ کے چند افراد نوٹس آویزاں کر گئے ہیں مگر ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ وہ چاہتے کیا ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ایک طرف احتساب عدالت میں مقدمہ چل رہا ہے جہاں ’ہم جا کر اپنا جواب دے رہے ہیں اور دوسری طرف بحریہ کے خلاف یکطرفہ کارروائی کا سلسلہ بھی شروع کر دیا گیا ہے۔‘
ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ابھی ہمیں یہ نہیں معلوم کتنی جائیدادیں سیل ہو گئی ہیں اور کتنی اور فہرست میں شامل ہیں۔ تاہم انہوں نے تسلیم کیا کہ نیب ایسی جائیدادوں کو بھی سیل کر رہی ہے جو کہ مارکیٹ میں بک چکی ہیں۔ انکے مطابق ابھی بحریہ ٹاؤن کی انتظامیہ کو بھی اصل صورتحال واضح نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ ابھی تک وہ یہی جانتے ہیں کہ 17 مارچ کو احتساب عدالت میں ہونے والی سماعت کو 20 مارچ تک ملتوی کیا گیا ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ انتظامیہ اور نیب وہاں کیا موقف پیش کرتے ہیں۔
دوسری جانب نیب کے مطابق ملک ریاض حسین اس وقت دبئی میں عدالتی مفرور کے طور پر مقیم ہیں، انہوں نے حال ہی میں دبئی میں لگژری اپارٹمنٹس کا ایک نیا منصوبہ شروع کیا ہے۔ نیب کا دعوی ہے کہ اس کے پاس اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ پاکستان سے کچھ افراد مجرمانہ طور پر اس پراجیکٹ میں سرمایہ کاری کے لیے اپنی رقم دبئی منتقل کر کے ملک ریاض کی مدد کر رہے ہیں۔ نیب کا کہنا ہے کہ اس کے پاس ملک ریاض اور ان کے ساتھیوں کے خلاف منی لانڈرنگ کے ٹھوس شواہد موجود ہیں۔ نیب کا کہنا ہے کہ ملک ریاض کے دبئی اپارٹمنٹس کے منصوبے کے لیے پاکستان سے جو بھی فنڈز منتقل کیے جائیں گے اسے منی لانڈرنگ تصور کیا جائے گا اور ملوث عناصر کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
وفاقی حکومت کی سولر صارفین کے ساتھ بڑی واردات کی کہانی
لیکن پاکستان میں رئیل اسٹیٹ سیکٹر پر نظر رکھنے والے احسن ملک نیب اور ایف آئی اے کی جانب سے بحریہ ٹاؤن کے خلاف کی جانے والی کارروائی کو غلط اور جانبدارانہ قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ سوئے ہوئے ادارے بہت عرصے بعد جاگے ہیں کیونکہ جو املاک بھی ضبط ہو رہی ہیں پہلے یہی ادارے ان کے ٹرانسفر لیٹرز تک خود جاری کرتے رہے۔انھوں نے کہا کہ اگر ملک ریاض نے کچھ غلط کیا ہے تو اس کی سزا ان کو ملنی چاہیے، نہ کہ ان لاکھوں پاکستانیوں کو جنہوں نے بحریہ ٹاؤن کے مختلف پروجیکٹس میں زمینیں خرید رکھی ہیں۔ احسن ملک کے مطابق ’جس پاکستانی نے بحریہ ٹاؤن کے کسی پروجیکٹ میں کوئی گھر یا فلیٹ خریدا ہے اور ٹیکسز اور ڈیوٹی ادا کر کے الاٹمنٹ لیٹر بھی حاصل کر لیا ہے اس کی جائیداد ضبط کر کے کون سا انصاف کیا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ایسا کوئی قانون نہیں جس کے تحت کسی عام آدمی کو اس کی محنت کی کمائی سے حاصل کی گئی جائیداد سے محروم کیا جا سکے۔