پاکستان کے میزائل پروگرام سے اصل خطرہ امریکہ کو ہے یا اسرائیل کو؟
معروف صحافی اور تجزیہ کار نصرت جاوید نے کہا ہے کہ امریکہ کی طرف سے پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام سے منسلک چار کمپنیوں پر پابندیاں عائد کرنے کا بنیادی مقصد اسرائیلی مفادات کے تحفظ کے لیے سعودی عرب پر دباؤ ڈالنا ہے۔ انکا کہنا ہے کہ پاکستان کا دور مار میزائل پروگرام امریکہ کے لئے براہ راست خطرہ ہرگز نہیں ہے۔ اس سے اصل مسئلہ اسرائیل کو ہے۔ چنانچہ پاکستان پر لگائی امریکی پابندیوں کا مقصد یہ ہے کہ وہ سعودی عرب کو وہ نفسیاتی پشت پناہی مہیا نہ کر پائے جس کی بدولت وہ فلسطینی ریاست کے قیام کے بغیر ہی اسرائیل کو بطور ریاست تسلیم کرنے کو رضا مند نہ ہو۔
اپنے تازہ تجزیے میں نصرت جاوید یاد دلاتے ہیں کہ بائیڈن انتظامیہ نے اچانک پاکستان کے دور مار میزائل پروگرام کی ترقی روکنے کے لئے پاکستان کے چار اداروں پر اقتصادی پابندیاں عائد کردی تھیں۔ ان پابندیوں کے بعد امریکہ کے نائب مشیر برائے قومی سلامتی نے دعویٰ کیا کہ پاکستان کے دور مار میزائل پروگرام کی بنیادی توجہ امریکہ پر مرکوز ہے۔ نائب مشیر برائے قومی سلامتی کا نام جان فائنر ہے۔
نصرت جاوید کہتے ہیں کہ میں نے اس کا بیان پڑھا تو ہکا بکا رہ گیا۔ بار ہا آنکھیں ملتے ہوئے اس کے بیان کو غور سے پڑھا اور حیران ہوا کہ دنیا کی واحد سپرطاقت ہونے کی دعوے دار کیسے یہ فرض کرسکتی ہے کہ ہم اسے ایٹمی ہتھیاروں سے تباہ کرنے کا سوچ سکتے ہیں۔ لیکن فائنر کا بیان مجھے سوچنے کو مجبور کرتا رہا کہ امریکہ کے ہمارے دور مار میزائل پروگرام سے خائف ہونے کی حقیقی وجہ کیا ہے۔ ابھی اس سوچ ہی میں مصروف تھا تو ایک دوست کے گھر ایک صاحب علم دوست سے ملاقات ہوگئی۔ موصوف بہت پڑھاکو اور پہنچی ہوئی شخصیت ہیں۔ مجھ جیسوں کو مگر نہایت عاجزی سے ’’دانشور‘‘ تسلیم کرتے ہیں۔
نصرت جاوید کہتے ہیں کہ میں نے جان فائنر کے بیان کا حوالہ دیا تو انہوں نے انکساری سے انہوں نے مشورہ دیا کہ اگر میں معروف امریکی صحافی Bob Woodward باب ووڈ ورڈ کی حالیہ کتاب ’’وار‘‘ غور سے پڑھ لوں تو فائنر کے بیان کی وجہ سمجھ آ جائے گی۔ یہ یاد دلانا ضروری ہے کہ باب ووڈ واشنگٹن پوسٹ کا 1977 کی دہائی میں ایک متحرک رپورٹر تھا۔ اس نے ’’واٹر گیٹ سکینڈل‘‘ دریافت کیا تھا جو بالآخر نکسن کے صدارت سے استعفیٰ دینے کا سبب بنا۔ عملی صحافت میں کچھ وقت گزارنے کے بعد باب نے مختلف صدور سے یہ وعدہ کیا کہ وہ ان کے دورِ اقتدار کے دوران ’’خبریں‘‘ نہیں لکھے گا۔ مگر اسکے بدلے اسے وائٹ ہائوس کی فیصلہ سازی تک رسائی کا حق ملے۔ اس نے آفر کی کہ جب کوئی صدر اپنے عہدے سے فارغ ہوجائے گا تو وہ اس کے دورِ اقتدار کے بارے میں ٹھوس معلومات پر مبنی ایک جائزہ نما کتاب لکھ دیا کرے گا۔ چنانچہ اس کی جارج بش سے ڈیل ہو گئی۔ اوبامہ نے بھی اسے نبھایا۔ حتیٰ کہ وہ اس کے دور میں ایک سرکاری وفد کے ساتھ پاکستان بھی آیا۔
نصرت جاوید کا کہنا ہے کہ امریکی صدور کے ساتھ باب ووڈ ورڈ کا معاہدہ ٹرمپ کے ساتھ بھی جاری رہا اور بائیڈن کے ساتھ بھی اس نوعیت کا معاملہ رہا۔ چند ہفتے قبل باب ووڈ ورڈ نے War یعنی جنگ کے عنوان سے ایک کتاب لکھی ہے۔ اس کے ذریعے سمجھنے کی کوشش ہوئی کہ روس یوکرین جنگ اور اسرائیل کی غزہ میں غارت گری دنیا کو بالآخر کہاں لے جائے گی۔ اپنی اس کتاب میں باب ووڈ امریکی سینیٹر لنڈسے گراہم Lindsey Graham کی سعودی کرائون پرنس محمد بن سلمان سے ایک ملاقات کی تفصیل بیان کرتا ہے۔ لنڈسے گراہم ایک طاقت ور سینیٹر ہے۔ اسی کی بدولت عمران خان کی بطور وزیر اعظم امریکی صدر ٹرمپ سے واشنگٹن میں ملاقات کا بندوبست ہوا تھا۔ اکتوبر 2023ء سے غزہ پر اسرائیل کی مسلسل غارت گری کے درمیان بھی وہ اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان کسی نوعیت کی صلح صفائی کے مشن پر مامور رہا۔
نصرت جاوید بتاتے ہیں کہ جس ملاقات کا ذکر باب ووڈ ورڈ کی کتاب میں ہے وہ لنڈسے گراہم کی سعودی کرائون پرنس سے پانچویں ملاقات پر مبنی ہے۔ اس ملاقات کے دوران لنڈسے نے اچانک سعودی کرائون پرنس سے درخواست کی کہ ٹرمپ سے بات کی جائے۔ یاد رہے کہ اس وقت تک ٹرمپ امریکہ کا صدر منتخب نہیں ہوا تھا۔ یہ ملاقات رواں برس کے مارچ میں ہوئی تھی۔ لنڈسے گراہم نے ٹرمپ سے بات کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تو سعودی پرنس نے اپنے ایک معاون کو اشارہ کیا۔ وہ پرنس کے روبرو ایک تھیلا لے کر آگیا۔ اس تھیلے میں پچاس سے زیادہ "برنر فونز” تھے۔ ’’برنرفون‘‘ سستا ترین ٹیلی فون ہوتا ہے۔ اسے استعمال کرنے کے بعد جلادیا جاتا ہے تاکہ اس پر ہوئی گفتگو ریکارڈ کا حصہ نہ بن سکے۔
بہرحال تھیلے میں رکھے برنر فونوں کو ٹٹولتے ہوئے سعودی کرائون پرنس نے ایک فون نکالا جس کے اوپر (Trump 50) لکھا تھا۔ اس فون سے اس نے ایک نمبر ملایا تو دوسری جانب ٹرمپ موجود تھا۔ محمد بن سلمان نے لنڈسے گراہم کی سہولت کی خاطر اس کا سپیکر فون بھی آن کردیا۔ جب ٹرمپ کو پرنس نے یہ بتایا کہ لنڈسے اس کے ساتھ موجود ہے تو ٹرمپ نے یاد دلایا کہ لنڈسے سعودی کرائون پرنس کا سخت مخالف تھا اور اس نے عہد باندھ رکھا تھا کہ جب تک محمد بن سلمان اپنے عہدے پر فائز ہیں وہ کبھی سعودی عرب نہیں جائے گا۔ لیکن اب مشرق وسطیٰ میں دیرپا امن قائم کرنے کے بہانے وہ سعودی عرب کا پانچواں دورہ کررہا تھا۔ اس دورے کے دوران لنڈسے گراہم محمد بن سلمان کو قائل کرتا رہا کہ اگر سعودی عرب واقعتا اسرائیل کو تسلیم کرنا چاہتا ہے تو اسے یہ قدم بائیڈن کے دورِ صدارت میں اٹھانا چاہیے۔ گراہم مصر رہا کہ اگر ٹرمپ امریکی صدر منتخب ہوگیا تو اس کے ایما پر سعودی عرب اور امریکہ کے مابین ایسا دفاعی معاہدہ نہیں ہوپائے گا جس میں امریکہ یہ وعدہ کرے گا کہ سعودی عرب پر حملہ امریکہ پر حملہ شمار ہوگا۔ گراہم مصر رہا کہ جس نوعیت کے امریکہ-سعودی معاہدہ کی وہ گفتگو کر رہا ہے وہ کرائون پرنس کے لئے جوہری قوت حاصل کرنے کو بے چین ایران سے تحفظ کے لئے انشورنس پالیسی کے مترادف ہے۔ سعودی عرب کو اپنا وجود برقرار رکھنے کے لئے اس کی اشد ضرورت ہے۔
یہ مشورہ دیا گیا کہ ٹرمپ نے اقتدار سنبھال لیا تو بائیڈن کی ڈیموکریٹ جماعت ایسے معاہدے کی حمایت میں ووٹ ڈالنے سے انکار کر دے گی۔ اسیلئے محمد بن سلمان کے لئے بہتر یہی ہے کہ وہ بائیڈن حکومت کے ہوتے ہوئے ہی اسرائیل سے صلح کی راہ بنائے اور مجوزہ معاہدے کا حصول یقینی بنالے۔ محمد بن سلمان مصر رہے کہ اسرائیل کی غزہ میں مسلسل غارت گری نے سعودی عوام کی اکثریت کو چراغ پا بنارکھا ہے۔ ان کے غصے کو نگاہ میں رکھتے ہوئے سعودی عرب اس وقت تک اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا جب تک اسرائیل غزہ میں جنگ بندی کے بعد آزاد فلسطینی ریاست کے قیام پر رضا مند نہ ہوجائے۔ گراہم نے دوبارہ سعودی عرب کو ایران کے ’’ایٹمی پروگرام‘‘ کا حوالہ دے کر سوچنے کو اْکسایا تو محمد بن سلمان نے بے اعتنائی سے جواب دیا کہ ان کا ملک یورینیم کو ایٹمی ہتھیار بنانے کے قابل بنانا چاہ رہا ہے۔ یہ بات کہتے ہوئے سعودی پرنس نے روانی میں یہ بھی کہہ دیا شاید ان کے ملک کو ایٹم بم بنانے کے لئے یورینیم کی ضرورت ہی نہ پڑے۔
باب ووڈ ورڈ کے مطابق سعودی پرنس نے بے اعتنائی سے یہ بھی کہا کہ وہ ایٹم بم کے لئے درکار یورینیم پاکستان سے بھی حاصل کر سکتے ہیں۔
کیا سانحہ 9 مئی کے منصوبہ ساز کپتان کو جیل سے رہائی ملے گی ؟
نصرت جاوید کہتے ہیں کہ مارچ 2024 میں لنڈسے گراہم اور محمد بن سلمان کے مابین ہونے والی گفتگو کے دوران پاکستان اور یورینیم کا ذکر یہ سمجھانے کو کافی ہے کہ بائیڈن نے وائٹ ہاوس چھوڑنے سے قبل پاکستان کے دور مار میزائل پروگرام پر پابندیوں کا اعلان کیوں کیا ہے۔ وہ چاہتا تھا کہ اس کے امریکی صدر ہوتے ہوئے سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم کرے۔ لیکن محمد بن سلمان نے انکار کردیا۔ چنانچہ بائیڈن انتظامیہ نے غصہ پاکستان پر نکالتے ہوئے اپنی انا کو تسکین فراہم کردی۔ لیکن ایک بات ثابت ہوگئی اور وہ یہ کہ پاکستان کا دور مار میزائل پروگرام امریکہ کے لئے براہ راست خطرہ ہرگز نہیں ہے۔ اس سے اصل مسئلہ اسرائیل کو ہے۔