پاکستان کی جاسوس بمقابلہ جاسوس سیاست کیا گل کھلائے گی؟
معروف صحافی اور تجزیہ کار
نجم سیٹھی نے کہا ہے کہ ”جاسوس بمقابلہ جاسوس” ٹائپ پاکستانی سیاست کی الجھی ہوئی دنیا میں کسی بھی چیز کی 100 فیصد ضمانت نہیں دی جاتی۔
لہذا اگر اپوزیشن کے ساتھ ایک مرتبہ پھر سے دھوکا ہوا اور تحریک عدم اعتماد ناکام بنا دی گئی تو نواز شریف اپنی توپوں کا رخ دوبارہ سے اسٹیبلشمنٹ کی جانب کر کے جرنیلوں کے نام لینا شروع کر دیں گے۔ ایسے میں فوجی اسٹیبلشمنٹ خود کو ایک گرداب میں پھنسا ہوا پائے گی، چنانچہ معاملہ ابھی یا کبھی نہیں کی سٹیج پر پہنچ چکا ہے۔
ہفت روزہ فرائیڈے ٹائمز کے لئے اپنے تازہ ایڈیٹوریل میں نجم سیٹھی کہتے ہیں کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے مشترکہ حزب اختلاف کی جانب سے وزیراعظم عمران خان، اسپیکر اسد قیصر اورڈپٹی سپیکر قاسم خان سوری کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کے لیے چند روز میں قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کے فیصلے کا اعلان کر دیا ہے۔ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے ذرائع کا دعویٰ ہے کہ 86 اراکین قومی اسمبلی نے نوٹس پر دستخط کیے ہیں حالانکہ قانون کے مطابق اس مقصد کے لیے صرف 68 اراکین کے دستخط ہی کافی ہوتے ہیں۔
آئینی طریقہ کار کے مطابق اسپیکر نوٹس موصول ہونے کے تین دن بعد اور سات دنوں کے اندر پارلیمنٹ کا اجلاس بلاتا ہے۔ وزیر اعظم کے خلاف رائے شماری اوپن بیلٹ کے ذریعے جبکہ سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے خلاف خفیہ رائے شماری کے ذریعے ہوتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اپوزیشن پہلے سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے خلاف قرارداد پیش کر سکتی ہے کیونکہ خفیہ رائے شماری تحریک انصاف اور اتحادی جماعتوں کے فلور کراس کرنے والوں کو تب تک پوشیدہ رہنے میں سہولت فراہم کر سکتی ہے جب تک کہ کامیابی انہیں دوسرے راؤنڈ میں وزیر اعظم کے خلاف کھل کر کھڑے ہونے کا حوصلہ نہیں دیتی۔ لیکن اگر حکومت اپنے حامیوں کو اسمبلی میں جانے سے باز رہنے کا حکم دیتی ہے تو یہ طریقہ کارگر ثابت نہیں ہو گا۔
نجم سیٹھی کہتے ہیں کہ دوسری جانب قیاس کیا جا رہا ہے کہ حزب اختلاف پنجاب اسمبلی میں کسی بھی دن ایسی عدم اعتماد کی تحریک پیش کرسکتی ہے۔اس دوران چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو کی قیادت میں لانگ مارچ حکمران جماعت پر عوامی دباؤ بڑھ رہا ہے۔ یہ لانگ مارچ پنجاب میں داخل ہوچکا ہے، اور اسے پنجاب پولیس کی جانب سے رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ نے نعرہ مستانہ لگانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔
حزب اختلاف اور حکمران جماعت، دونوں کے اہم قائدین کی طرف سے ہفتوں کی سرگرم سیاست کے بعد یہ صورت حال سامنے آئی ہے ۔ حزب اختلاف کا اصل ہدف حکومت کے بیس یا اس سے زیادہ اتحادیوں کو ملانا تھا۔ حکومت کی صفوں سے بھی اتنے ہی اراکین کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔
اور ظاہر ہے کہ حکومت اس پر شدید مزاحمت کررہی تھی۔ ایک طرف دو بھٹو زرداری، دو شریف، تین سابق وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی، راجہ پرویز اشرف اور شاہد خاقان عباسی اور محترم مولانا کھڑے ہیں۔ دوسری طرف پررعونت عمران خان ذاتی طور پر اتحادیوں، خاص طور پر گجرات کے چوہدریوں پر ساتھ کھڑے رہنے کے لیے زور دے رہے ہیں۔ اس دوران وہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر باجوہ کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ کا سہارا لینے اور اپنا بچاؤ کرنے کی آخری کوشش میں مصروف ہیں۔
بقول سیٹھی، اب تک تجزیہ کار اس صورت حال کی نفی کرتے چلے آئے ہیں۔ دلیل دی جاتی رہی کہ اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے منتخب کی گئی موجودہ حکومت کو کیسے معزول کیا جا سکتا ہے، خاص طور پر جب وہ ”ایک ہی صفحہ” پر ہوں؟ نجم سیٹھی کہتے ہیں کہ عمران خان کی جگہ واحد آپشن نواز شریف تھے، اور نواز کو ہٹانے کے لیے ابھی چند سال پہلے اسٹیبلشمنٹ نے زمین و آسمان ہلا کر رکھ دیے تھے۔
لیکن عقابی نگاہیں رکھنے والوں کو اس ایک صفحے کی لکیریں گڈمڈ ہوتی اور الجھتی دکھائی دینے لگی تھیں۔ عمران اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان قومی سلامتی کی پالیسیوں، خارجہ امور، اقتصادی نظام اور یک طرفہ ”احتساب” کے حوالے سے شدید اختلافات پیدا ہوچکے تھے۔ ان کی وجہ سے فوجی اسٹیبلشمنٹ کو شرمندگی کا سامنا تھا کیوں کہ ان تمام معاملات پر اسے عمران خان کے ساتھ شریک سمجھا جارہا تھا۔ اس طرح یہ پیشین گوئی کرنے میں کوئی عار نہیں تھا کہ مسٹر خان کا انجام قریب ہے، گو اس میں تھوڑی سی تاخیر ہو سکتی ہے۔
لیکن جب پیپلز پارٹی، پی ڈی ایم اور اسٹیبلشمنٹ ایک ہی صفحے پر پہنچ جائیں گے تو سوال یہ ہو گا کہ عدم اعتماد کی تحریک کے کامیاب ہونے کے بعد کیا ہوگا؟ اگلی حکومت کی نوعیت اور دائرہ کار، قومی اسمبلی اور صوبوں کے اگلے انتخابات کا وقت اور طاقت کی تقسیم کے مختلف سمجھوتوں کی نوعیت کیا ہوگی؟ یہ سب طے یو گیا تو تاخیر ختم ہوجائے گی۔
نجم سیٹھی کا کہنا ہے کہ عمران خان ممکنہ طور پر حزب اختلاف کو ناکام بنانے کے لیے اپنے تمام ریاستی اور حکومتی وسائل جھونک دیں گے۔ اس میں حزب اختلاف کی شخصیات کی گرفتاریاں، اتحادیوں کو سیاسی رشوت اور آزاد میڈیا کو ہراساں کرنا بھی شامل ہے۔ یہ بھی خارج از امکان نہیں کہ وہ فوجی اسٹیبلشمنٹ پر چڑھ دوڑیں اور اپنے ساتھ اس نظام کو بھی منہدم کرنے پر تل جائیں۔
لیکن حزب اختلاف کو عمران کی کمزوری صاف دکھائی دے رہی ہے۔ روسی صدر ولادیمیر پوتن کے ساتھ ان کے ہاتھ ملانے کا مقصد اسٹیبلشمنٹ کے مشورے کے باوجود ملک میں امریکہ مخالف نوجوان حامیوں کی جذباتی حمایت حاصل کرنا تھا۔ موجودہ معاشی ”ریلیف” پیکیج کا مقصد انتخابی سال میں عوام کو بے وقوف بنانا ہے حالانکہ یہ آئی ایم ایف پروگرام کو پٹری سے اتار کر پاکستان کو دیوالیہ کر سکتا ہے۔ بھارت کے ساتھ تجارت کے نتیجے میں ضروری اشیا کی قیمتوں میں اضافے کو ختم کر کے بڑے پیمانے پر آبادی کو ریلیف فراہم کیا جاسکتا ہے۔ لیکن عمران خان اس کے لیے تیار نہیں۔
بقول سیٹھی، اس انکار کی ایک ہی منطق سمجھ میں آتی ہے کہ اس کا مقصد اسٹیبلشمنٹ اور اپوزیشن پر حملہ کرنا ہے۔ جب وہ خود حکومت سے باہر ہوں گے اور اگلی حکومت ”دشمن ملک“ کے ساتھ تجارت کرنے اور امریکہ کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کرنے کی کوشش کرے گی تو وہ ملک میں جذباتی فضا قائم کردیں گے۔ اگرچہ ہم معقول طور پر اس بات کا یقین کر سکتے ہیں کہ حزب اختلاف نے اس طرح کا سٹریٹجک اعلان کرنے سے پہلے اپنا ہوم ورک مکمل کر لیا ہے اور عمران خان جلد ہی گھر کی راہ لیں گے، لیکن پاکستانی ”جاسوس بمقابلہ جاسوس” سیاست کی الجھی ہوئی دنیا میں کسی بھی چیز کی 100 فیصد ضمانت نہیں دی جاتی۔
سوال یہ ہے کہ عدم اعتماد کا ووٹ عمران خان کو عہدے سے نہ ہٹا سکا تو پھر اپوزیشن کیا کرے گی؟ کہا جاسکتا ہے کہ مسلم لیگ ن اس دلیل کی بنیاد پر اسٹیبلشمنٹ پر دباؤ ڈالے گی کہ اس کی غیر جانبداری حقیقت میں عمران کے حق میں حمایت ہی تصور ہوتی ہے۔ یوں اگر اپوزیشن کے ساتھ ایک اور ”دھوکہ“ ہوتا ہے تو ہمیں نواز شریف سے یہ توقع رکھنی چاہیے کہ وہ دوبارہ توپوں کے دہانے وا کردیں گے اور نام لے کر تنقید کریں گے۔
عوامی ہمدردی نواز شریف کے ساتھ ہوگی، اور اسٹیبلشمنٹ خود کو ایک گرداب میں پائے گی، جیسا کہ اس نے پہلے بھی ہوا تھا۔ اہم بات یہ ہے کہ عمران خان کی جانب سے عوام سمیت کسی کو ریلیف کی کوئی امید نہیں۔ حساب چکانے کا وقت آ چکا ہے اور اپوزیشن کے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں ہے لہذا اسے کچھ نی کچھ حاصل ہی ہوگا۔ لہذا شرط لگا لیں، معاملہ ابھی یا کبھی نہیں کی سٹیج پر پہنچ چکا ہے۔