عمران کی ڈوبتی کشتی کے سوار پرویزالٰہی بھی ڈوب گئے
ایم کیو ایم کی جانب سے عمران خان کا ساتھ چھوڑنے، علیم خان گروپ کی طرف سے پرویز الہی کو بطور وزیر اعلیٰ مسترد کیے جانے اور جہانگیر ترین گروپ کی اس معاملے پر مکمل خاموشی کے بعد اب اپوزیشن کو دھوکہ دینے والے سپیکر پنجاب اسمبلی وزارت اعلیٰ کی دوڑ سے باہر ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ یوں عمران خان کی ڈوبتی کشتی میں سوار ہونے والے پرویز الہی خود بھی ڈوبنے جا رہے ہیں۔
یاد رہے کہ پرویز الہی نے عمران سے وزارت اعلی کی آفر حاصل کرنے کے لیے یہ دعوی کیا تھا کہ وہ پی ٹی آئی اور اس کے تینوں ناراض گروپوں کی حمایت سے بزدار کی جگہ وزیر اعلی بن جائیں گے۔
لیکن اب یہ اطلاعات ہیں کہ پی ٹی آئی کے علیم خان گروپ کے بعد جہانگیر ترین گروپ اور غضنفر چھینہ گروپ بھی پرویز الٰہی کی بطور وزیراعلی نامزدگی کی مخالفت کردیں گے، یوں ان کے وزیر اعلی پنجاب بننے کے امکانات ختم ہوتے نظر آتے ہیں۔ تاہم سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پرویز الہی کی وزارت اعلیٰ کا خواب تب ہی بکھر گیا تھا جب ایم کیو ایم نے وفاقی حکومت سے علیحدہ ہو کر اپوزیشن کے ساتھ جانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ اپوزیشن کی جانب سے قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کر لینے کے بعد اب جب عمران حکومت کا خاتمہ یقینی ہے تو پرویز الہی بھی پنجاب کے وزیر اعلی نہیں بن پائیں گے۔
دوسری جانب ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ قاف لیگ میں پھوٹ پڑنے اور پرویزالٰہی کی جانب سے بلوچستان عوامی پارٹی اور ایم کیو ایم کو منانے میں ناکامی کے بعد اب عمران بزدار کو فارغ کرنے کے فیصلے پر بھی نظر ثانی کر رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق ہو سکتا ہے عمران اپنی ممکنہ فراغت کے پیش نظر عثمان بزدار کو فارغ نہ کریں اور ان کی قسمت کا فیصلہ اپوزیشن پر چھوڑ دیں۔
حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ پرویز الہی کو وزارت اعلی کی کمٹمنٹ منٹ دیتے وقت عمران نے کچھ شرائط بھی رکھی تھیں جن میں پرویز الہی کے ذمے بلوچستان عوامی پارٹی اور ایم کیو ایم کو منانے کا ٹاسک بھی شامل تھا۔ تاہم پرویز الہی کو تب شدید شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا جب ان کی اپنی پارٹی کے طارق بشیر چیمہ نے عمران کے خلاف ووٹ دینے کا اعلان کر دیا اور پھر بلوچستان عوامی پارٹی اور ایم کیو ایم نے بھی حکومت کا ساتھ چھوڑ دیا۔
شاید اسی وجہ سے ابھی تک وزیراعظم نے عثمان بزدار کا استعفی گورنر پنجاب سرور کو منظوری کے لیے نہیں بھجوایا۔ ایسے میں عمومی رائے یہی ہے کہ اگلے چند روز میں عمران خان کی وزارت عظمی کے خاتمے کے بعد پرویزالہی کا وزیر اعلی پنجاب بننے کا خواب بھی چکنا چور ہو جائے گا۔
یاد رہے کہ 27 مارچ کو عثمان بزدار نے وزیر اعظم کو اپنا استعفیٰ جمع کروا دیا گیا تھا۔ اس اعلان سے قبل پرویز الٰہی اپوزیشن کا ساتھ دینے کی یقین دہانی اس شرط پر کروا چکے تھے کہ انھیں وزیر اعلیٰ بنایا جائے گا تاہم انھوں نے باضابطہ طور پر اس کا اعلان نہیں کیا تھا لیکن اگلے ہی روز انھوں نے اپنی حمایت حکومت کے لیے ظاہر کر دی، جس کے نتیجے میں حکومت کی طرف سے انھیں وزات اعلیٰ کی کرسی آفر کی گئی جو انھوں نے قبول کر لی۔
پرویز الٰہی کے اس اقدام پر اپوزیشن حلقوں کی جانب سے شدید تنقید کی گئی تھی اور اسے دھوکہ قرار دیا گیا تھا۔ پرویز الہی کے اس فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے مفاہمت کی سیاست کرنے والے آصف علی زرداری نے بھی ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ق لیگ والے ہمارے ساتھ آ گئے تھے لیکن پتا نہیں انھیں کیا سوچ آئی۔
زرداری نے کہا کہ ’رات کو وہ مجھے مبارکباد دے کر صبح کہیں اور چلے گئے۔‘ انھوں نے مزيد کہا کہ ’پنجاب میں ہم تبدیلی لائیں گیں اور اپنی مرضی کی تبدیلی لائیں گے۔ جسے ہم وزير اعلیٰ نامزد کریں گے وہی وزیر اعلیٰ بنے گا اور پرویز الٰہی پنجاب کے وزیر اعلی نہیں ہوں گے۔‘ مسلم لیگ نون کے رہنما رانا ثنا اللہ نے پرویز الٰہی کے اس فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے وزیر اعلیٰ پنجاب کے خلاف پرویز کے کہنے پر تحریک عدم اعتماد جمع کرائی اور بعد میں وہ پیچھے ہٹ گے۔ انھوں نے کہا کہ ’چوہدری صاحب پی ٹی آئی آپ کو وزیر اعلیٰ نہیں بنا سکتی۔ پی ٹی آئی پنجاب میں بکھر چکی اور ان کے پاس ووٹ ہی پورے نہیں۔
‘
اس وقت اگر پنجاب اسمبلی پر نظر دوڑائیں تو پاکستان تحریک انصاف کے پاس 183، مسلم لیگ ن کے پاس 165، ق لیگ کے پاس 10، پیپلز پارٹی کے پاس 7، پاکستان راہ حق پارٹی کے پاس ایک سیٹ اور 5 اراکیں آزاد حیثیت میں موجود ہیں جبکہ پرویز الٰہی کو وزیر اعلیٰ بننے کے لیے 186 ووٹ درکار ہوں گے جو کہ پی ٹی آئی کے تین حصوں میں بٹ جانے کے بعد ممکن نظر نہیں آتا۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عمران خان نے پرویز الہی کو وزیر اعلی پنجاب بنانے کی آفر تب کی جب انہیں مکمل طور پر یقین ہوگیا کہ وہ مرکز میں اپنی حکومت بچانے میں کامیاب نہیں ہوں گے۔ ان کا خیال تھا کہ پرویز الٰہی نہ صرف اپنی جماعت کے پانچ ووٹ انہیں دلوا دیں گے بلکہ ایم کیو ایم اور باپ پارٹی کے بارہ ووٹ بھی سنبھال لیں گے، لیکن ایسا نہیں ہو پایا اور اب عمران کی ڈوبتی کشتی میں سوار ہونے والے پرویز الہی بھی ان کے ساتھ ہی ڈوبنے جا رہے ہیں۔
Parvez Elahi aboard Imran’s sinking boat also drowned | video