عمران کو نکالنے کیلئے ن لیگ اورپیپلزپارٹی اکٹھے ہو گئے

کپتان حکومت گرانے کے لیے اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں کاتمام آئینی اورسیاسی آپشنز استعمال کرنے پر اتفاق ہواہے، مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی قیادت کے درمیان اہم ملاقات ہوئی جس میں پیپلز پارٹی نے حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا مطالبہ کیا تاہم ن لیگ کی جانب سے حتمی فیصلہ نواز شریف کریں گے۔

پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور سابق صدر آصف علی زرداری سے لاہور میں ملاقات کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے مسلم لیگ نواز کے صدرشہباز شریف نے کہا ہےکہ چند دن میں ن لیگ کی سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی سے مشاورت کے بعد اس معاملے کو پی ڈی ایم میں لے کر جائیں گے جس کے بعد فیصلہ کیا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’تمام سیاسی جماعتوں کی اپنی سوچ ہے لیکن اس شدید بحران کے زمانے میں اکھٹے نہ ہوئے اور ایک ایجنڈے پر اتفاق نہیں کیا تو پھر قوم ہمیں معاف نہیں کرے گی۔ شہباز شریف نے کہا کہ حالیہ دنوں میں دہشت گردی نے پھر سر اٹھایا ہے، لاہور، اسلام آباد، پشاور اور بلوچستان میں پے در پے دہشت گردی کے حملے ہوئے ہیں۔ یہ جو خونخوار اور دہشت گرد لوگ ہیں، ان کو جہنم رسید کرنے کے لیے ہماری افواج پاکستان کے افسروں اور جوانوں نے ہمیشہ کی طرح اب بھی جام شہادت نوش کیا۔

صدرمسلم لیگ نوازنے کہا کہ یہ بات آپ کی ذہن نشین ہونی چاہیے کہ چاہے پیپلزپارٹی کا زمانہ تھا تو اس وقت ضرب مومن کا آغاز ہوا اور جب نواز شریف کا دور آیا تو ضرب عضب اور ردالفساد کے آپریشن ہوئے اور اس ملک کے اندر دہشت گردی کا تقریباً خاتمہ ہوگیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ بدقسمتی ہے کہ پچھلے ساڑھے تین سال میں پاکستان تحریک انصٓف (پی ٹی آئی) کی حکومت کو توفیق نہیں ہوئی کہ جو ان کی حکومت سے پہلے نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیا گیا تھا اور فعال کام کرتا تھا.

اس کو فعال کرتے لیکن اس کو بالکل سرد خانے میں ڈال دیا۔ شہباز شریف کا کہنا تھا کہ جب اچھا وقت آئے گا تو سب اپنی سیاست کریں گے لیکن آج ہمیں صرف ایک نکتے پر اکٹھا ہونا چاہیے کہ پاکستان کو اگر تباہی سے بچانا ہے تو حکومت سے چھٹکارا حاصل کرنا ہوگا۔

اپوزیشن کا دلاورخان گروپ سے کلئیر پوزیشن لینے کا مطالبہ

اس موقع پر پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کاکہناتھاکہ عمران خان کو ہٹانے کے لیے ہر قدم اٹھانے کو تیار ہیں، حکومت سے عوام کا اعتماد اٹھ چکاہے، اب پارلیمان کا اعتماد بھی اٹھنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو بچانا ہے توعمران خان کو نکالنا ضروری ہے۔ عوام اس وقت یہی چاہتےہیں۔

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ آج سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی کے اجلاس بعد پہلی باقاعدہ ملاقات ہے۔ اس حکومت کو ہٹانے کے لیے جو پارلیمانی، آئینی اور جمہوری طریقہ ہے وہ احتجاج کے ساتھ ساتھ عدم اعتماد کا عمل ہے۔ انہوں نے کہا کہ عدم اعتماد پر اتفاق رائے پیدا کر رہے ہیں ۔ ہم نے اپنی پارٹی کی سوچ اور پلانز پر ن لیگ کی قیادت سے بات کی ہے۔ ن لیگ کے اتحادیوں کے پلان پر بھی بات ہوئی۔

دوسری جانب مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز کا میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں کے درمیان اختلاف رائے ہوتا ہے۔ جوچیز تمام سیاسی جماعتوں کو جوڑتی ہے وہ عوام کی مشکلات اور ان کی توقعات ہیں۔ اور جب وہ بات آئے گی تو ہم آپس کے اختلافات بھلا کر عوام کی بہتری کے لیے اکھٹے آگے بڑھیں گے۔

پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے شہباز شریف کی رہائشگاہ سے واپسی پر میڈیا سے غیر رسمی بات کرتے ہوئے کہا کہ میاں صاحب کا شکریہ، انہوں نے ہمیں کھلے دل سے بلایا۔ صحافی نے آصف علی زرداری سے سوال کیا کہ کیا آپ کو مسلم لیگ ن پر اعتماد ہے؟۔ جس پر آصف علی زرداری نے مثبت انداز میں سر ہلا کر اعتماد ہونے کا اشارہ دیا۔

اس سے قبل میاں شہبازشریف کی دعوت پر آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو لاہور میں شہباز شریف کی ماڈل ٹاؤن رہائش گاہ پہنچے تو ن لیگ کے صدر نے مریم نواز اور حمزہ شہباز کے ہمراہ ان کا استقبال کیا۔ اس موقع پر مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ سعد رفیق اور مریم اورنگزیب بھی موجود تھیں۔ جبکہ بلاول بھٹو زرداری اور آصف زرداری کے ہمراہ حسن مرتضی اور رخسانہ بنگش موجود تھے۔ دونوں جماعتوں کے وفود کے درمیان احتجاجی لانگ مارچ کا انضمام کرنے اور حکومت مخالف لائحہ عمل سے متعلق اہم گفتگو ہوئی۔

Back to top button