غیر ممالک میں جلاوطن بلوچ قوم پرستوں کو کون مار رہا ہے؟


پاکستان سے فرار ہو کر غیر ممالک میں جلاوطنی کی زندگی گزارنے والے متحرک بلوچ قوم پرست کارکنان کی پراسرار انداز میں گمشدگی اور قتل کی وارداتوں میں تیزی آ گئی ہے جسکا الزام پاکستان کی خفیہ ریاستی ایجنسیوں پر عائد کیا جا رہا ہے۔
ایک تازہ ترین واقعہ میں معروف بلوچ سیاسی کارکن اور بلوچستان سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی سابق چیئر پرسن کریمہ بلوچ کی لاش کینیڈا کے شہر ٹورنٹو سے برآمد ہوئی ہے۔ ان کا قتل سویڈن میں بلوچ قوم پرست صحافی ساجد حسین کے پہلے لاپتہ ہونے اور پھر لاش برآمد ہونے کے کچھ ماہ بعد کیا گیا ہے اور طریقہ واردات کار ایک جیسا ہے۔ کریمہ بلوچ بھی بلوچ قوم پرست جلاوطن کارکن تھی اور اپنی جان بچانے کے لیے کینیڈا آئی تھی ۔ انہیں 20 دسمبر کو اغوا کیا گیا اور پھر اگلے روز اس کی لاش ملی۔ سویڈن میں ساجد حسین کا اغوا اور قتل بھی اسی طریقے سے ہوا تھا۔
یاد رہے کہ 2016 میں بی بی سی نے کریمہ بلوچ کو دنیا کی 100 بااثر ترین خواتین کی لسٹ میں شامل کیا تھا۔ کریمہ نظریاتی طور پر بلوچستان کے سینیئر قوم پرست رہنما نواب خیربخش مری کے قریب تھیں۔ بلوچستان سے لاپتہ افراد کے لیے جب کراچی میں احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا تو وہ منتظمین میں شامل تھیں۔ انھوں نے کراچی میں ترقی پسند طلبہ تنظیموں کے ساتھ رابطہ کاری بھی کی اور انھیں بلوچستان کی صورتحال سے آگاہ کرتی رہیں۔ تاہم جب بعد میں ان کے خلاف گھیرا تنگ کر دیا گیا اور انہیں اپنی جان خطرے میں نظر آئی تو وہ کینیڈا نکل گئیں۔ لیکن موت کے فرشتے وہاں بھی جا پہنچے اور ان کی جان لے لی۔
بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق ٹورنٹو پولیس نے کریمہ بلوچ کے اہلخانہ اور انکے ساتھ مقیم دوستوں کو ان کی ہلاکت کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ان کی لاش پولیس تحویل میں ہے جسے پوسٹ مارٹم کے بعد ورثا کے حوالے کیا جائے گا۔
تاحال کریمہ بلوچ کی ہلاکت کی وجوہات سامنے نہیں آ سکی۔ دوسری جانب سوشل میڈیا پر ان کی ہلاکت کی تحقیقات مطالبہ زور پکڑ رہا ہے اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی ’مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے‘ کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کی جانب سے ٹوئٹر پر جاری کیے گئے ایک پیغام میں کہا گیا ہے کہ ’کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں سماجی کارکن کریمہ بلوچ کی ہلاکت انتہائی افسوسناک ہے اور اس کی فوری اور مؤثر تحقیقات ہونی چاہیے اور مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جانا چاہیے۔‘ پولیس کے مطابق کریمہ بلوچ کو آخری بار اتوار 20 دسمبر 2020 کو تقریباً دوپہر تین بجے دیکھا گیا تھا، جس کے بعد سے وہ لاپتہ تھیں۔
ٹورنٹو پولیس نے کریمہ بلوچ کی گمشدگی کے بعد ان کا مکمل حلیہ اور تصویر اپنی ویب سائٹ پر جاری کیا تھا اور عوام سے اپیل کی تھی کہ وہ تلاش میں پولیس کی مدد کریں۔ کریمہ بلوچ کے قریبی ساتھی لطیف جوہر بلوچ نے بھی ایک ٹویٹ کے ذریعے کریمہ بلوچ کی ہلاکت کی تصدیق کی اور لوگوں سے ان کے خاندان اور دوستوں کے دعا کرنے کی اپیل کی۔ واضح رہے کہ 37 برس کی کریمہ بلوچ کینیڈا میں پناہ گزین کی حیثیت سے مقیم تھیں۔ کریمہ بلوچستان کے شہر تربت میں 2005 میں اس وقت پہلی بار سامنے آئی تھیں جب انھوں نے ہاتھ میں ایک لاپتہ نوجوان گہرام کی تصویر اٹھا رکھی تھی۔ یہ نوجوان ان کا قریبی رشتے دار تھا، نقاب پہنے ہوئے یہ نوجوان لڑکی کون تھیں صرف چند ہی لوگ جانتے تھے۔
بلوچستان کے ضلع کیچ کی تحصیل تمپ سے تعلق رکھنے والی کریمہ بلوچ کے والدین غیر سیاسی تھے تاہم ان کے چچا اور ماموں بلوچ مزاحمتی سیاست میں سرگرم رہے ہیں۔
بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں کی ماں سمجھی جانے والی طلبہ تنظیم بلوچستان سٹوڈنٹس آرگنائزیشن یا بی ایس او کے تین دھڑوں کا جب 2006 میں انضمام ہوا تو کریمہ بلوچ کو سینٹرل کمیٹی کا رکن منتخب کیا گیا۔ یہ سفر جاری رہا اور 2008 میں وہ جونیئر نائب صدر کے عہدے پر فائز ہوئیں۔
بی ایس او رہنما زاہد بلوچ کی جبری گمشدگی کے بعد کریمہ نے تنظیم کے چیئرپرسن کے طور پر ذمہ داریاں سنبھالی تھیں اور وہ بی ایس او کی پہلی خاتون چیئرپرسن تھیں۔ تنظیمی طور پر یہ ایک کٹھن دور تھا جب تنظیم کے مرکزی رہنماؤں کی جبری گمشدگی ہو چکی تھی، بعض افراد پوشیدہ ہو گئے تھے اور کچھ نے سرے سے ہی اپنی راہیں علیحدہ کر لی تھیں۔ بلوچستان کی آزادی میں یقین رکھنے والی طلبہ تنظیم بی ایس او آزاد پر حکومت پاکستان نے مارچ 2013 میں پابندی عائد کردی تھی۔ ایسے میں کریمہ بلوچ نے اس تنطیم کو فعال رکھا اور بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں جا کر تنظیمی مواد بھی وہاں پہنچاتی رہیں۔
کریمہ بلوچ کا شمار ان پہلی خواتین طلبہ رہنما کے طور پر کیا جاتا ہے جنھوں نے نئی روایت قائم کی اور تربت سے لے کر کوئٹہ تک سڑکوں پر نکل کر احتجاج کیا۔ کریمہ بلوچ نے بی بی سی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ان کا احتجاج ’جبری گمشدگیوں‘ اور ’ریاستی آپریشنز‘ کے خلاف ہوتا ہے۔ تربت میں ایسی ہی ریلی میں احتجاج کے دوران ان پر انسداد دہشت گردی کا پہلا مقدمہ 2008 میں درج ہوا اور پھر انھیں اشتہاری قرار دیا گیا اور ان پر ایف سی سے رائفل چھیننے، لوگوں کو بھڑکانے اور اشتعال انگیزی کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ کریمہ کے بقول عدالت نے انھیں جب سزا سنائی تو کہا کہ خاتون ہونے کی وجہ سے آپ کی سزا میں رعایت دی جاتی ہے جس پر انھوں نے کہا کہ ’سزا بھی برابری کی بنیاد پر دی جائے۔‘
دریں اثناء بی ایس او کے ایک ترجمان نے الزام عائد کیا ہے کہ کریمہ بلوچ کے اغوا اور قتل میں پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کا ہاتھ ہے اور انہیں اس قتل کی قیمت ادا کرنا ہوگی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button