نون لیگ پی اے سی کی سربراہی پی ٹی آئی کو دینے پر کیسے راضی ہوئی؟
عمران خان کی جانب سے اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹنے اور حکومت سے مذاکراتی عمل آگے بڑھانے کے فیصلے کے بعد تحریک انصاف کیلئے بھی سیاسی راہیں کھلنا شروع ہو گئی ہیں۔ اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے بالآخر تین ماہ کی تاخیر کے بعد پارلیمنٹ کی طاقتور ترین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی سمیت 40 قائمہ کمیٹیاں تشکیل دے دی ہیں۔ متفقہ فارمولے کے مطابق حکومت سنی اتحاد کونسل کو قومی اسمبلی میں پی اے سی سمیت 10 کمیٹیوں کی سربراہی دینے پر راضی ہو گئی ہے۔
قومی اسمبلی سیکرٹیریٹ کے باضابطہ اعلامیہ کے مطابق اسپیکر نے 17 مئی کو قومی اسمبلی میں پیش کی جانے والی تحریک کی روشنی میں کمیٹیوں کے ارکان کے ناموں کو حتمی شکل دے دی۔حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ایک ذرائع نے بتایا کہ متفقہ فارمولے کے مطابق اپوزیشن یعنی سنی اتحاد کونسل کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی سمیت 10 کمیٹیوں کی سربراہی ملے گی۔انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کو 13 کمیٹیوں کی چیئرمین شپ جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کو بالترتیب 8 اور 2 کمیٹیوں کی سربراہی ملے گی، باقی کمیٹیوں کی چیئرمین شپ حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں میں تقسیم کی جائے گی۔رہنما مسلم لیگ (ن) کا کہنا تھا کہ پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم اپنے حصے سے زیادہ کمیٹیوں کی چیئرمین شپ کا مطالبہ کر رہے ہیں اور اس معاملے پر ان سے مذاکرات جاری ہیں، ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ابھی یہ فیصلہ ہونا باقی ہے کہ ان جماعتوں کو کون سی کمیٹیاں جائیں گی۔پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ مسلم لیگ (ن) نے ماضی کی روایت کے مطابق اور پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان طے پانے والے میثاق جمہوریت کی روشنی میں اپوزیشن یعنی سنی اتحاد کونسل کو اس کی سربراہی کی پیشکش پر اتفاق کیا ہے۔
واضح رہے کہ عمران خان نے ابتدائی طور پر شیر افضل مروت کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی چیئرمین کے عہدے کے لیے نامزد کیا تھا، تاہم بعد میں اس عہدے کے لیے شیخ وقاص اکرم کو نامزد کرنے کا فیصلہ کیا، دلچسپ بات یہ ہے کہ قومی اسمبلی سیکرٹیریٹ کی جانب سے پی اے سی کے ممبران کی فہرست سے ظاہر ہوتا ہے کہ شیر افضل مروت پی اے سی کے رکن بھی نہیں ہیں۔نوٹیفکیشن کے مطابق پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اراکین میں مسلم لیگ (ن) کے سردار یوسف زمان، وزیر دفاع خواجہ آصف، ڈاکٹر طارق فضل چوہدری، جنید انور چوہدری، شذہ منصب کھرل، رضا حیات ہراج اور رانا قاسم نون شامل ہیں، پیپلز پارٹی کی مرتضیٰ محمود، شازیہ مری، سید حسین طارق، سید نوید قمر اور حنا ربانی کھر، اسی طرح اپوزیشن لیڈر عمر ایوب خان بطور آزاد امیدوار، سنی اتحاد کونسل کے ثنا اللہ مستی خیل، جنید اکبر، ریاض خان، وقاص اکرم، عامر ڈوگر اور خواجہ شیراز محمود جبکہ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے عامر معین پیرزادہ اور جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی-ف) کی شاہدہ بیگم شامل ہیں۔علاوہ ازیں چیئرمین سینیٹ کمیٹی کے لیے 8 سینیٹرز بھی نامزد کریں گے۔
مبصرین کے مطابق افہام و تفہیم کی کمی اور کچھ اختلافات کی وجہ سے شہباز شریف کے وزیر اعظم منتخب ہونے کے تین ماہ بعد بھی حکومت اور اپوزیشن کمیٹیوں کی تشکیل اور چیئرمین شپ پر اتفاق کرنے میں ناکام رہے تھے۔قواعد کے تحت 3 مارچ کو وزیر اعظم کے انتخاب کے بعد 30 دن کے اندر کمیٹیاں تشکیل دی جانی تھیں۔کمیٹیوں کی تشکیل میں تاخیر نہ صرف اسمبلی رولز کی خلاف ورزی ہے بلکہ اس سے قانون سازی کا کام بھی متاثر ہوتا ہے۔
دوسری جانب سینیٹ میں قائمہ کمیٹیوں کی تشکیل تاحال اختلافات کا شکار ہے۔سینیٹ میں قائد ایوان اسحاق ڈار نے پاکستان تحریک انصاف کو مرضی کی کمیٹیاں دینے سے معذرت کرلی۔سینیٹ کمیٹیوں کے معاملے پر اتفاق رائے نہ ہونے پر اسحاق ڈار اور اپوزیشن میں مذاکراتی عمل بھی تعطل کا شکار ہوگیا ہے۔ پی ٹی آئی سینیٹر علی ظفر کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے کمیٹیاں خود سے تقسیم کرلیں، تحریک انصاف کو احتساب والی کمیٹیاں نہیں دی گئیں، جو قابل افسوس ہے۔