2024 میں دنیا میں کونسی بڑی سیاسی تبدیلیاں آنے والی ہیں؟
سال 2024 دنیا میں بہت سے چیلنجز لے کر آرہاہے اور ایک بڑا چیلنج آئندہ آنیوالی سیاست ہے ، جہاں نئے پرانے چہرے دوبارہ حکمرانی کے خواب دیکھ رہے ہیں اور ان کے یہ خواب شرمندہ تعبیر ہونگے یا نہیں اس کا فیصلہ انتخابات کریں گے ۔2024 انتخابات کا سال قرار دیا جارہا ہے جس میں 30 سے زائد ممالک اپنے سربراہ کا انتخاب کرینگے۔
5 نومبر 2024 کو لاکھوں امریکی ملک کے صدر کا انتخاب کریں گے، اب دیکھنا یہ ہے کہ عوام 86 سالہ جو بائیڈن یا 77 سالہ ڈونلڈ ٹرمپ میں کس کو منتخب کرتی ہے؟ اور کیا ٹرمپ پابندی کے بعد الیکشن کیلئے اہل قرار پاتے ہیں یا ان کی نااہلی کے بعد ان کی جگہ کون سنبھالتا ہے۔ٹرمپ ریپبلکن پارٹی کی نامزدگی کے واضح انتخاب میں شامل ہیں، اس کے باوجود کہ ان پر متعدد مجرمانہ مقدمات چل رہے ہیں اور وہ ایک ریاست سے انتخابات کیلئے نااہل بھی ہوچکے ہیں۔جو بائیڈن کی بات کریں تو ان کی مہم کو ایک دھچکا اس وقت لگا جب امریکی ایوان نمائندگان نے بائیڈن کے خلاف باراک اوباما کے دور میں ان کے بیٹے کے متنازع بین الاقوامی کاروباری معاملات کی بنیاد پر مواخذے کی باقاعدہ تحقیقات شروع کرنے کی منظوری دے دی ۔
پراعتماد روسی صدر ولادیمیر، جو یوکرین میں جنگ کے دو سال بعد اپنے عہدے پر فائز رہتے ہوئے فوجیوں کی کامیابی سے حوصلہ افزائی کر رہے ہیں، مارچ کے انتخابات میں اپنی 24 سالہ حکمرانی کو مزید چھ سال تک بڑھانے کی امید کر رہے ہیں۔8 دسمبر کو انہوں نے اعلان کیا کہ وہ پانچویں مدت کے لیے انتخاب لڑ رہے ہیں جو انہیں 2030 تک اقتدار میں رکھے گا۔2020 میں روسی صدر نے آئین میں ترمیم کی تھی تاکہ انہیں 2036 تک نظریاتی طور پر اقتدار میں رہنے کی اجازت مل جائے جو ممکنہ طور پر جوزف سٹالن سے زیادہ عرصے تک برسراقتدار رکھ سکتا ہے۔اگرچہ یوکرین جنگ کو ان کیخلاف استعمال کیا جاتا رہا ہے مگر تخت پر ان کے راستے آسان نظر آتے ہیں کیونکہ انکا دیرینہ دشمن الیکسی ناوالنی 19 سال سے قید کی سزا کاٹ رہا ہے۔
جنوبی ایشیا میں اہمیت رکھنے والے دو ملک نئے سال 2024 میں قومی انتخابات کے معرکے میں داخل ہو رہے ہیں ، پاکستان میں نواز شریف، بھارت میں مودی وزارت عظمیٰ کے امیدوار ہیں۔8 فروری کو پاکستانی عوام اپنی تقدیر کا فیصلہ کریں گے ، مسلم لیگ ن ، پیپلزپارٹی ، پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی سمیت دیگر جماعتیں انتخابی عمل میں حصہ لینے کیلئے سرگرم نظر آرہی ہیں ۔تین بار پاکستان کے وزیرِ اعظم رہنے والے نواز شریف کا سیاسی کرئیر اتار چڑھاؤ پر مبنی ہے ، وہ کئی بار سیاست کے میدان سے باہر ہوئے اور اس کے لیے انہیں یا تو کبھی جلاوطن کیا گیا اور کبھی انہوں نے خود ہی ملک سے دوری اختیار کر لی، طویل خود ساختہ جلا وطنی کے بعد ملکی سیاست میں ان کا ایک اور کم بیک ہوا ہے اور وہ الیکشن جیت کر عوام کی مشکلات میں کمی لانے کے خواہاں ہیں ۔
دنیا کی سب سے زیادہ آبادی والے ملک میں تقریباً ایک ارب ہندوستانی آئندہ برس اپریل-مئی ایک ایسے انتخابات میں حصہ لیں گے جس میں وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی قوم پرست بی جے پی پارٹی تیسری مدت کے لیے امیدوار ہیں۔مودی کا سیاسی کیریئر اور کامیابی ہندوستان کے ایک ارب سے زائد ہندوؤں کی حمایت پر مبنی ہے اور ناقدین کا کہنا ہے کہ انہیں یہ حمایت ملک کی بڑی مسلم اقلیت کے خلاف دشمنی کو ہوا دینے کی وجہ ہوسکتی ہے ۔بنیادی شہری حقوق کی خلاف ورزیوں کے باوجود مودی کو واضح طور پر عوام میں پسندیدگی حاصل ہے کیونکہ ان کاماننا ہے کہ عالمی سطح پر ان کے ملک کو ترقی کی راہ پر لے جانے کا سہرا مودی کے سر ہے۔
جون میں ہونے والے دنیا کے سب سے بڑے بین الاقوامی پول میں 400 ملین سے زیادہ لوگ یورپی پارلیمنٹ کے انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے اہل ہوں گے۔یہ ووٹ دائیں بازو کے پاپولسٹوں کی حمایت کا امتحان ہو گا، جن کے پاس امیدواروں کے طور پر گیرٹ وائلڈرز اسلام مخالف فاتح ہیں ، نومبر کے ڈچ انتخابات میں یورپی یونین مخالف فریڈم پارٹی کی فتح اور گزشتہ سال اٹلی میں جارجیا میلونی کی جیت کے بعد کافی کچھ سوچنے کو ہے۔برسلز تاہم پولینڈ سے امید رکھ سکتا ہے جہاں یورپی کونسل کے سابق صدر ڈونلڈ ٹسک مضبوطی سے یورپی یونین کے حامی پلیٹ فارم پر اقتدار میں واپس آئے ہیں۔
دارالحکومت کی ایک بائیں بازو کی سابق میئر اور ایک مقامی کاروباری خاتون مدمقابل ہیں ، دونوں خواتین جون میں میکسیکو جیسے روایت پسند ملک کی پہلی خاتون صدر بن کر تاریخ رقم کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔میکسیکو سٹی کی سابق میئر کلاڈیاشین بام سبکدوش ہونے والے صدر اینڈریس مینوئل لوپیز اوبراڈور کی مورینا پارٹی کی جانب سے انتخاب لڑ رہی ہیں۔ان کے واضح مخالف Xochitl Galvez کو حزب اختلاف کے اتحاد، براڈ فرنٹ فار میکسیکو کی نمائندگی کے لیے منتخب کیا گیا ہے۔