کے پی میں سیاسی جماعتیں پھر شدت پسندوں کےنشانےپر؟
پاکستان میں امن و امان کے حالات 2013 کے بعد قدرے بہتر ہوئے تھے لیکن افغانستان میں افغان طالبان کے آنے کے بعد پاکستان میں شدت پسندی میں ایک بار پھر اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔2022 میں پاکستان میں شدت پسندی کے 365 واقعات کے مقابلے میں محکمہ داخلہ کے مطابق 2023 میں اب تک 800 سے زیادہ واقعات رپورٹ ہو چکے ہیں۔پاکستان میں عام انتخابات آٹھ فروری 2024 کو منعقد ہوں گے اور سیاسی جماعتوں نے سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کر دیا ہے لیکن بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ آئندہ ہونے والے الیکشن میں کچھ سیاسی جماعتیں دوبارہ نشانے پر ہوں گی۔
اس بات کا خدشہ گذشتہ مہینے محکمہ داخلہ خیبر پختونخوا کی جانب سے پشاور ہائی کورٹ میں جمع کروائی گئی ایک رپورٹ میں بھی کیا گیا ہے جس میں بتایا گیا کہ انتخابات میں مولانا فضل الرحمان کی جمیعت علمائے اسلام، اے این پی اور مسلم لیگ ن کو سکیورٹی خطرات درپیش ہیں۔اسی طرح رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ’پاکستان تحریک انصاف کے اینٹی اسٹیبلیشمنٹ بیانیے کا شدت پسند فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور اسی وجہ سے ان کو بھی خطرات لاحق ہیں۔‘تاہم سوال پیداہوتا ہے کہ کیا سکیورٹی کے مخدوش حالات کی وجہ سے تمام سیاسی جماعتوں کو لیول پلیئنگ فیلڈ فراہم کی جائے گی یا دوبارہ یہ جماعتیں شدت پسندوں کے نشانے پر ہوں گی۔
اے این پی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان کے مطابق ’میں گذشتہ دو تین سال سے بتا رہا ہوں کہ حالات خراب ہو رہے ہیں۔‘انہوں نے کہا: ’میں پشاور ہائی کورٹ گیا ہوں۔ سپریم کورٹ گیا ہوں اور ہر فورم پر یہی آواز اٹھانے کی کوشش کی ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ ’امن مذاکرات‘ کس نے اور کس کے کہنے پر کیے اور اس کا فائدہ کس کو ہوا اور کن شرائط پر کیے گئے؟‘ایمل ولی نے کہا کہ ’ان حالات میں لیول پلیئنگ فیلڈ کی فراہمی کا سوچنا بچگانہ ہوگا کیونکہ ہم پہلے بھی نشانہ بنے ہیں اور 2018 میں جب دیگر سیاسی جماعتیں انتخابی مہمات میں مصروف تھیں، ہمارے ہارون بلور کو شہید کیا گیا۔‘ ’اسی طرح 2013 میں بھی اے این پی شہدا کی لاشیں اٹھا رہی تھی۔‘انہوں نے کہا کہ ’کچھ لوگ جن کا نظریہ تشدد، وحشت، دہشت، کلاشنکوف، دھماکے، خودکش حملے ہیں تو ان حالات میں جب آپ امن کی بات کریں گے تو آپ شدت پسندوں کے نشانے پر ہوں گے۔‘
دوسری جانب صحافی و تجزیہ کار مشتاق یوسفزئی کے خیال میں موجودہ حالات ماضی سے مختلف ہیں۔ ’ماضی میں اے این پی کو شدت پسندوں کی جانب سے نشانہ بنایا گیا جبکہ آفتاب شیرپاؤ سمیت سیاسی جلسوں میں دھماکے ہوئے لیکن انتخابات ملتوی نہیں ہوئے تھے اور اب بھی انتخابات ممکن ہیں۔‘مشتاق کے مطابق: ’سیاسی مہمات کے لیے کچھ ایس او پیز بنائے جانے چاہییں اور قبائلی اضلاع میں خصوصاً شام کے بعد جلسے جلوسوں کے بجائے چھوٹی کارنر میٹنگز کرنی چاہییں۔‘مشتاق کا کہنا تھا کہ ’ایسی مختصر تقاریب کو سکیورٹی فراہم کرنا آسان ہو گا کیونکہ اب پولیس اور سکیورٹی اہلکار بھی نشانے پر ہیں تو ان حالات میں سکیورٹی اداروں کے لیے بھی کام کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔‘ایک سوال کے جواب میں مشتاق یوسفزئی کا کہنا تھا: ’پاکستانی شدت پسندوں نے افغانستان جانے کے بعد افغان طالبان سے بہت کچھ سیکھا ہے۔’ٹی ٹی پی نے ماضی میں عوامی مقامات کو نشانہ بنایا تھا اور اس کا ردعمل بھی زیادہ ہوتا تھا اور اسی لیے ان کی واپسی کی عوامی سطح پر مزاحمت دیکھنے میں آ رہی ہے۔‘ان کے مطابق: ’اسی وجہ سے عوام میں اپنا تاثر بہتر بنانے کے لیے ٹی ٹی پی نے عوامی مقامات کو ٹارگٹ کرنا چھوڑ دیا ہے اور اب زیادہ سکیورٹی اداروں کے اہلکاروں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔‘ساتھ ہی ان کا کہنا تھا: ’اب اگر سکیورٹی اہلکاروں کو خود ٹارگٹ کیا جا رہا ہے تو سیاسی جلسوں اور جلوسوں کو سکیورٹی دینا مشکل ہو جاتا ہے تو اسی وجہ سے ایس او پیز بنانے کی ضرورت ہے لیکن انتخابات کو ملتوی
کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘