پاور آف ٹنگ
تحریر : جاوید چوہدری
بشکریہ: روزنامہ ایکسپریس نیوز
نیو یارک کی 33 ویں اسٹریٹ پر چلتے چلتے مجھے ایک پرانا واقعہ یاد آ گیا‘ یہ واقعہ میں نے سیلف ہیلپ کی کسی کتاب میں پڑھا تھا۔
کسی مکان کے سامنے چٹان کا ایک بڑا ٹکڑا پڑا تھا‘ مالک نے چٹان اٹھانے کے لیے کسی مزدور کا بندوبست کیا‘ مزدور نے کوشش کی لیکن وہ چٹان کو اٹھانا تو دور اسے ہلا تک نہ سکا‘ مالک قریب کھڑا ہو کر یہ دیکھ رہا تھا‘ مزدور نے انکار میں سر ہلا دیا‘ مالک نے مسکرا کر کہا ’’تم نے ابھی پورے جسم کا زور نہیں لگایا‘ سارا زور استعمال کرو تم چٹان کو آسانی سے اٹھا لو گے‘ مزدور نے دوبارہ کوشش کی‘ ایڑی چوٹی کا زور لگایا لیکن ناکام ہو گیا۔ مالک نے ہنس کر کہا ’’تم نے بے شک کوشش کی لیکن تم نے ابھی تک پورے جسم کا زور نہیں لگایا‘ چٹان اٹھانا کوئی مسئلہ نہیں‘‘ مزدور جھکا اور ایک بارپھر پورے جسم کا زور لگا دیا لیکن نتیجہ وہی نکلا چٹان اپنی جگہ قائم رہی‘ مزدور نے اپنی شکست مان لی‘ مالک نے غور سے اس کی طرف دیکھا اور پھر پوچھا ’’کیا تم نے واقعی اپنے پورے جسم کا زور لگا دیا‘‘ مزدور نے تھوڑی سی خفگی کے ساتھ جواب دیا ’’سر میں نے گردوں تک کا زور لگا دیا لیکن یہ چٹان میری اوقات سے کہیں زیادہ بھاری ہے‘‘ مالک نے قہقہہ لگایا اور بولا ’’لیکن میرے بھائی اس کے باوجود تمہارے جسم میں ایک ایسا عضو موجود ہے جس کا تم معمولی سا بھی استعمال کر لیتے تو یہ چٹان اس وقت تک یہاں نہ پڑی ہوتی‘‘ مزدور حیرت سے مالک کی طرف دیکھ کر بولا ’’جناب وہ کون سا عضو ہے جس کے استعمال سے میں یہ چٹان اٹھا سکتا تھا؟‘‘ مالک نے جواب دیا ’’میرے بھائی اس عضو کو زبان کہتے ہیں‘ تم اگر اسے استعمال کر لیتے‘ تم اگر اس کی طاقت استعمال کر لیتے اور مجھے یا ایک دو لوگوں کو مدد کے لیے بلا لیتے تو ہم مل کر اس چٹان کو یہاں سے اٹھا کر دور پھینک آتے لیکن تم نے جسم کے تمام اعضاء استعمال کیے‘ پوری طاقت خرچ کر دی لیکن اگر نہیں استعمال کی تو زبان کی طاقت استعمال نہیں کی چناں چہ ایڑی چوٹی کا زور لگانے کے باوجود تم چٹان نہیں ہلا سکے‘‘۔
ہم نیویارک کی 33ویں اسٹریٹ پر گھوم رہے تھے‘ ہم نے وہاں سے سینٹرل پارک جانا تھا اور سینٹرل پارک سے میٹرو پولیٹن میوزیم‘ میری بیٹی نیویارک میں فیشن پڑھ رہی ہے‘ اسے کرسمس کی چھٹیاں ہیں‘ میں چند دن اس کے ساتھ گزارنے کے لیے نیویارک آ گیا‘بیٹی گوگل میپ کے ذریعے ڈائریکشن تلاش کرتی رہی اور ہم گھنٹہ بھر ایک ہی دائرے میں گھومتے پھرتے رہے‘ وہ جب تھک گئی تو میں نے اسے پتھر اٹھانے والے کی کہانی سنائی اور اس کے بعد مشورہ دیا ’’بیٹا ’’یوز یور پاور آف ٹنگ آل ویز اینڈ ایوری ویئر‘‘۔ بیٹی آج کے دور کی پیداوار ہے اور آج کی نسل کا سب سے بڑا المیہ نہ ماننا ہے‘ آج کی نسل کسی کا مشورہ نہیں لینا چاہتی‘ یہ ٹیکنالوجی کو انسان سے زیادہ اہمیت دیتی ہے لہٰذا میری بیٹی کا جواب تھا ’’پاپا یہ لوگ پرائیویٹ زندگی گزارتے ہیں‘ ان لوگوں نے کان میں ’’ائیرپاڈز‘‘ لگائے ہوتے ہیں‘ یہ ہر وقت چلتے پھرتے کچھ نہ کچھ سنتے رہتے ہیں اور اگر انھیں کوئی ڈسٹرب کرے تو یہ برا منا جاتے ہیں۔
میں اس کی بات سن کر ہنس پڑا‘ میرے سامنے سینٹرل پارک میں ایک جوان جوڑا اپنے کتے کے ساتھ گھوم رہا تھا‘ میں نے ’’ایکسکیوزمی‘‘ کہہ کر انھیں مخاطب کیا اور ان سے میپ کا راستہ پوچھا‘ دونوں نے مسکرا کر میری طرف دیکھا اور اپنی منزل اور کتا دونوں کو بھلا کر پوری تفصیل کے ساتھ مجھے راستہ سمجھایا‘ میں اس کے بعد ہر جگہ لوگوں کو روکتا اور پوچھتا رہا‘ آپ یقین کریں مجھے کسی نے انکار نہیں کیا‘ میری بیٹی مائینڈ کر گئی لیکن کسی نیویارکر نے برا منایا اور نہ معذرت کی‘ میں نے اس کے بعد بیٹی کو بتایا زبان واقعی دنیا کی سب سے بڑی پاور ہے‘ جوشخص اس طاقت کا استعمال سیکھ لے وہ زندگی میں کبھی ناکام نہیں ہوتا‘ وہ ہمیشہ لوگوںکو اپنے ساتھ جوڑ لیتا ہے لہٰذا کبھی پوچھتے ہوئے نہ گھبرائیں‘ نہ راستہ اور نہ ہی کسی مشکل کا حل‘ ہم اللہ سے بھی زبان کے ذریعے مدد مانگتے ہیں‘ ہم استاد سے بھی زبان کے ذریعے سیکھتے ہیں‘ سوال علم کا سب سے بڑا سورس ہوتا ہے‘ آپ زندگی میں جتنا پوچھتے جاتے ہیں‘جتنے سوال کرتے جاتے ہیں‘ آپ پر اتنا ہی علم نازل ہوتا جاتا ہے اور جہاں آپ کے سوال رک جاتے ہیں وہاں آپ پر علم اور ترقی کا راستہ رک جاتا ہے لہٰذا پوچھتے رہا کریں‘ دوسروں سے مدد مانگتے رہا کریں‘ زندگی آسان ہو جائے گی ورنہ آپ کی ضد آپ کو گوگل میپ کی طرح دائرے میں گھماتی رہے گی اور آپ ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکیں گے۔
شکور عالم میرے بزرگ دوست ہیں‘ یہ نیوجرسی میں رہتے ہیں‘ عمر 85 سال ہے اور امریکا میں بہت متحرک ہیں‘ یہ نیویارک میں پی آئی اے کے منیجر ہوتے تھے‘ ریٹائرمنٹ کے بعد امریکا میں بس گئے‘ شروع میں ٹریولنگ کا کاروبار کرتے تھے‘ اس سے بھی ریٹائرمنٹ کے بعد چیریٹی کا کام شروع کر دیا اور یہ اب الخدمت سے وابستہ ہیں‘ سیکڑوں طالب علموں‘ یتیموں‘ بیواؤں‘ بیماروں اور ضرورت مندوں کی مدد کرتے رہتے ہیں‘ میں اگست میں نیویارک آیا تو ان سے اوپر نیچے ملاقاتیں ہوتی رہیں‘ شکور صاحب نے ان ملاقاتوں میں ایک عجیب واقعہ سنایا‘ ان کا کہنا تھا میں عین جوانی میں حج کے لیے جا رہا تھا‘ اس زمانے میں لاہور اور راولپنڈی سے فلائیٹ کراچی آتی تھی‘ حاجیوں کو ایک آدھ دن حاجی کیمپ میں رکھا جاتا تھا اور پھر مختلف فلائیٹس کے ذریعے سعودی عرب بھجوا دیا جاتا تھا‘ میں راولپنڈی سے فلائیٹ میں سوار ہوا تھا‘ ہمارے ساتھ ایک بزرگ میاں بیوی بھی سفر کر رہے تھے۔
وہ بے چارے پہلی بار جہاز پر بھی سوار ہوئے تھے اور ان کا غالباً اپنے شہر سے باہر بھی پہلا سفر تھا‘ وہ جہاز کو بس سمجھ رہے تھے اور ان کا خیال تھا انھیں سعودی عرب پہنچنے میں ایک دو مہینے لگ جائیں گے‘ بہرحال ہم کراچی اتر گئے‘ میں نے بیلٹ سے اپنا سامان اتارا اور باہر نکل گیا لیکن پھر مجھے اچانک خیال آیا وہ دونوں میاں بیوی بزرگ بھی ہیں‘ ان پڑھ بھی اور سادے بھی‘ وہ بے چارے اپنا سامان کیسے لیں گے اور ائیرپورٹ سے باہر کیسے نکلیں گے چناں چہ میں واپس ائیرپورٹ کے اندر چلا گیا‘ میں نے وہاں عجیب منظر دیکھا‘ وہ دونوں میاں بیوی گوٹھ مار کر زمین پر بیٹھے تھے اور بیلٹ پر ان کا سامان چکر کھاتا جا رہا تھا‘ ہال میں ان کے علاوہ کوئی نہیں تھا‘ میں ان کے پاس گیا‘ ان کا سامان بیلٹ سے اتارا‘ سہارا دے کر انھیں اٹھایا اور انھیں اپنے ساتھ لے کر باہر کی طرف چل پڑا‘ تھوڑی دیر چلنے کے بعد باباجی نے اماں سے کہا ’’میں نے تمہیں کہا تھا ناں کہ کوئی نہ کوئی اللہ کا فرشتہ آئے گا اور ہمیں حج کرا دے گا‘‘ اماں نے آسمان کی طرف دیکھا اور پھر شکور عالم کی طرف دیکھ کر کہا ’’ہاں اللہ نے انسان کی شکل میں اپنا فرشتہ بھیج دیا‘‘ شکور عالم کا یہ واقعہ بھی پاور آف ٹنگ کی مثال ہے‘ بزرگ میاں بیوی نے سفر کے دوران شکور صاحب سے بات چیت کی‘ بات چیت اتنی معصومانہ تھی کہ شکور صاحب نے دونوں بزرگوں کی ذمے داری اٹھا لی‘ دوسرا وہ دونوں بھی ایک دوسرے کے ساتھ اچھی اور پر امید بات چیت کر رہے تھے اور میرا تجربہ اور مشاہدہ ہے انسان جب ایک دوسرے کے ساتھ امید سے بھرپور‘ مثبت اور اچھی بات چیت کرتا ہے تو اس کا نتیجہ بھی اچھا نکلتا ہے۔
نیویارک میں کرسمس کی تیاریاں جوبن پر ہیں‘ پورے شہر میں کرسمس مارکیٹس لگی ہیں‘ 48 اسٹریٹ پر راک فیلر بلڈنگ کے سامنے بھی مارکیٹ لگی تھی‘ چار سائیڈز پر لکڑی کے کیبن میں چھوٹی چھوٹی دکانیں تھیں جب کہ درمیان میں مصنوعی برف پر سیکٹنگ ہو رہی تھی‘ راک فیلر بلڈنگ کے سامنے دنیا کا سب سے بڑا کرسمس ٹری لگایا جاتا ہے‘ پوری دنیا سے سیاح یہ ٹری دیکھنے اور اس کے ساتھ تصویریں بنوانے کے لیے آتے ہیں‘ میری چھوٹی بیٹی بھی میرے ساتھ تھی‘ اس کی عمر بارہ سال ہے‘ یہ ایک دکان سے ’’میش میلو‘‘ لینا چاہتی تھی‘ لائین بہت لمبی تھی جب کہ ہمارے پاس وقت کم تھا‘ میں نے اس سے کہا ’’میں آپ کو ابھی پاور آف ٹنگ کا مظاہرہ کر کے دکھاؤں!‘‘ بیٹی حیرت سے میری طرف دیکھنے لگی۔
جانی، آؤ سول نافرمانی کریں؟
میں اسے کاؤنٹر پر لے کر گیا‘ اس سے میش میلو پسند کرائے اور اس کے بعد لائین میں سب سے آگے کھڑے شخص کو بیس ڈالر کا نوٹ پکڑا کر درخواست کی کیا آپ اپنے آرڈر کے ساتھ ہمارا آرڈر بھی کر سکتے ہیں‘لائین بہت لمبی ہے اور ہمیں ذرا جلدی ہے‘‘ اس شخص نے خوش دلی سے جواب دیا ’’کیوں نہیں؟‘‘ اور ساتھ ہی اس نے اپنے آرڈر کے ساتھ ہمارا آرڈر بھی دے دیا اور یوں دو منٹ بعد ہمارے میش میلو ہمارے ہاتھ میں تھے‘ میں نے اس اجنبی شخص کا شکریہ ادا کیا اور اس کے ساتھ بیٹی کو مشورہ دیا ’’دیکھو ہم نے چند لفظوں کی طاقت سے ایک اور پتھر اٹھا لیا لہٰذا بیٹا بات کرو‘ دوسروں کی ہیلپ لو اور مدد مانگنے والوں کی مددکرو‘ زندگی کا سب سے بڑا سبق یہی ہے۔