PPPیا نون لیگ بلوچستان میں اگلی حکومت کون بنائے گا؟
ملک کا پسماندہ ترین صوبہ بلوچستان اس وقت مرکز کی سیاست کا محور بنا ہوا ہے۔ بلوچستان میں سیاسی جوڑ توڑ کا سلسلہ جاری ہے۔گزشتہ ماہ پاکستان مسلم لیگ ن نے صوبے کی 30 سے زائد اہم سیاسی اور قبائلی شخصیات کو اپنی جماعت کا حصہ بنایا جبکہ اس کے علاوہ جمعیت علماء اسلام ف، نیشنل پارٹی اور پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کے ساتھ انتخابی اتحاد سمیت سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی حامی بھری تاہم اب پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی صوبے کے اہم رہنماؤں کو اپنی جانب راغب کرنے کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔2 روز قبل پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور پی پی پی پارلیمنٹیرین کے صدر آصف علی زرداری سمیت اہم مرکزی اور صوبائی قائدین نے بلوچستان کا رخ کیا جہاں گزشتہ روز پی پی پی نے یوم تاسیس کی مناسبت سے جلسہ عام کا انعقاد کیا اور بعد ازاں سیاسی پرندوں کو اپنے گھونسلے میں آنے کی دعوت دینی شروع کردی۔
آصف علی زردری اور بلاول بھٹو زرداری بلوچستان کی اہم سیاسی شخصیات کو اپنی پارٹی میں شامل کرنے کے لیے سرگرداں ہیں۔ پیپلز پارٹی نے اپنے یومِ تاسیس پر ایک بھرپور شو کرنے کے بعد اب سیاسی بساط پر بھی اپنے مہرے چل کر سیاسی پنڈتوں کو حیران کر دیا ہے اور صوبے کے سیاسی منظرنامے میں ایک بار پھر پیپلز پارٹی نمایاں ہوئی ہے۔تاہم ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان سرِدست الیکٹ ایبلز اور اہم سیاسی شخصیات کو اپنی جماعتوں کا حصہ بنانے کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔
گذشتہ ایک ماہ کے دوران مسلم لیگ ن اور جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کے سربراہوں کے دوروں کے بعد ان دنوں پیپلز پارٹی کے قائدین آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو بلوچستان کے دورے پر ہیں۔پیپلز پارٹی کے قائدین صوبے کے سیاسی رہنماؤں، پارٹی کی صوبائی قیادت، کارکنوں اور مختلف شعبۂ زندگی کی شخصیات سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ان کی سرگرمیوں نے کوئٹہ کے سرد موسم میں بھی سیاسی درجۂ حرارت میں اضافہ کیا ہے۔
سابق وزیراعلٰی عبدالقدوس بزنجو نے بھی پیپلز پارٹی میں شامل ہونے کا عندیہ دیا ہے، تاہم ان کا کہنا ہے کہ وہ باقاعدہ شمولیت کا اعلان آصف زرداری اور بلاول بھٹو سے ملاقات کے بعد کریں گے۔ دوسری جانب تجزیہ کاروں کے مطابق ن لیگ کی جانب سے درجن سے زائد سابق پارلیمنٹیرینز سمیت 30 اہم شخصیات کو اپنی صفوں کا حصہ بنانے کے بعد پیپلز پارٹی کی قیادت کا حالیہ دورۂ کوئٹہ بھی بُرا نہیں رہا۔
تجزیہ کار رشید بلوچ کہتے ہیں کہ ’گذشتہ سال کے آخر میں بلوچستان کے کئی الیکٹ ایبلز کی شمولیت کے بعد حالیہ دوروں میں ہونے والی شمولیتوں سے پیپلز پارٹی کو بلوچستان میں کسی حد تک آکسیجن ملی ہے۔‘رشید بلوچ کا خیال ہے کہ ’2018 کی نسبت 2024 کے انتخابات میں پی پی پی کی بلوچستان اسمبلی میں مناسب نمائندگی ہوگی، تاہم وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ بلوچستان میں ن لیگ کی پوزیشن زیادہ مستحکم ہوگی۔‘ان کا کہنا ہے کہ ’بلوچستان میں 2018 میں بلوچستان عوامی پارٹی کی شکل میں انتخابات کے نتائج یک طرفہ رہے تھے تاہم، اس بار ایسا نہیں ہو گا۔‘ رشید بلوچ کے بقول، ن لیگ کی پوزیشن اچھی ہوسکتی ہے مگر وہ بھی تنہا حکومت بنانے کے قابل نہیں ہو گی اور اسے حکومت سازی کے لیے جے یو آئی یا کسی دوسری جماعت سے اتحاد کرنے کی ضرورت پیش آئے گی۔
دوسری جانب تجزیہ کار شاہد رند سمجھتے ہیں کہ ’آئندہ عام انتخابات میں بلوچستان میں مسلم لیگ ن اور جمعیت علمائے اسلام اچھی پوزیشن میں ہوں گی جبکہ بلوچ اور پشتونخواملی عوامی پارٹی، نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی سمیت بلوچ اور پشتون قوم پرست جماعتیں اپنی بقا کی جنگ لڑیں گی۔‘ان کا خیال ہے کہ اس بار جے یو آئی بلوچستان کے پشتون علاقوں سے ہی نہیں بلکہ بلوچ علاقوں میں بھی نظر آئے گی کیونکہ حالیہ مہینوں میں بلوچ علاقوں سے سابق وزیراعلٰی نواب اسلم رئیسانی سمیت اہم شخصیات کی شمولیت سے اس مذہبی جماعت کی طاقت میں اضافہ ہوا ہے۔شاہد رند کا کہنا ہے کہ ’بلوچستان میں پہلے بظاہر یہ دکھائی دے رہا تھا کہ پیپلز پارٹی کھیل سے باہر ہوگئی ہے، تاہم آصف علی زرداری نے شطرنج کا جو میدان سجایا ہے اگر ان کی مقامی قیادت اس کے مطابق اچھا کام کرے تو پیپلز پارٹی بھی اچھی پوزیشن میں آسکتی ہے۔‘
سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق بلوچستان میں ہر گزرتے دن کے ساتھ سیاسی منظر نامہ تبدیل ہوتا جا رہا ہے اور ایک بار پھر الیکٹیبلز کا پیپلز پارٹی میں شامل ہونا صوبے میں جماعت کو مستحکم کر رہا ہے۔ تاہم یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ بلوچستان میں کون سی سیاسی جماعت زیادہ نشستیں حاصل کرکے حکومت تشکیل دے گی۔