کیاPPPپنجاب اور PMLN سندھ فتح کر پائے گی؟
عام انتخابات کا وقت قریب آتے ہی سیاسی جماعتوں کی جانب سے انتخابی عمل کی تیاریوں کا آغاز کر دیا ہے۔جہاں ایک طرف ماضی کی اتحادی جماعتیں ایک دوسرے کے مدمقابل صف آراء ہو رہی ہیں ادھر دوسری طرف نئے اتحاد کی تشکیل کا عمل بھی جاری ہے۔ ہمیشہ کی طرح پنجاب سے حکمت عملیوں اور جوڑ توڑ کا سلسلہ بھی شروع ہو چکا ہے، جبکہ سندھ میں پیپلزپارٹی کو ٹف ٹائم دینے کی تیاریاں بھی پس پردہ جاری ہیں۔
وی نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق عام انتخابات سے قبل اس وقت پاکستان پیپلزپارٹی سب سے زیادہ متحرک دکھائی دے رہی ہے، کسی بھی جماعت کی انتخابات میں کامیابی کا دارومدار پنجاب پر ہوتا ہے اس لیے آصف زرداری نے بھی لاہور میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ بظاہر ان کا ہدف پاکستان مسلم لیگ ن ہے، اور بتایا جارہا ہے کہ چند روز میں ایک شمولیتی پروگرام منعقد ہو گا جس میں پاکستان مسلم لیگ ن کی خواتین وفاداری تبدیل کرتے ہوئے پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کریں گی۔ آصف زرداری کی کوشش ہے کہ کسی بھی طرح پنجاب کا قلعہ فتح کیا جائے۔
دوسری جانب پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری کے پنجاب میں ڈیرے ڈالنے کے بعد پاکستان مسلم لیگ ن نے بھی ایک چال چلی ہے جو بظاہر سندھ میں اپوزیشن کو متحد کرنے کی کوشش ہے تاہم یہ اتحاد حقیقت میں پیپلز پارٹی کو سندھ میں ٹف ٹائم دینے کیلئے تشکیل دیا جا رہا ہے اور اصل میں پیپلز پارٹی کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ پنجاب پر سیاسی حملے کرنے میں احتیاط برتی جائے۔
سندھ میں مسلم لیگ ن کی حکمت عملی بارےپاکستان مسلم لیگ ن کے ایک سینیئر رہنما نے نام نا ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ پیپلز پارٹی پنجاب میں جو کر رہی ہے سندھ میں اس کا ری ایکشن ضرور نظر آئے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ سندھ میں پاکستان مسلم لیگ ن، جمعیت علماء اسلام، جی ڈی اے اور ایم کیو ایم مل کر پیپلز پارٹی کے خلاف صف آرا ہوں گے۔پاکستان مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما کا مزید کہنا تھا کہ جہاں جہاں اپوزیشن جماعتوں کے امیدوار تگڑے ہوں گے وہاں اسی امیدوار کو ٹکٹ دیا جائے گا لیکن ہمارے اکثریتی امیدوار آزاد ہوں گے جو بعد میں کسی بھی جماعت کا حصہ بن جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اب سندھ میں مزید پیپلز پارٹی کو لانے کا مطلب مزید تباہی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر یہ جماعتیں جیت نا بھی سکیں تو امید ہے کہ بڑی تعداد میں سیٹیں نکالنے میں کامیابی ضرور ملے گی۔تحریک انصاف سے متعلق ایک سوال کے جواب میں مسلم لیگی رہنما نے کہاکہ تحریک انصاف کے ساتھ ہمارا الائنس نہیں ہو سکتا کیوں کہ اسٹیبلشمنٹ یہ نہیں چاہتی۔ ’نہیں لگتا کہ پاکستان تحریک انصاف سندھ میں مضبوط پوزیشن میں ہے‘۔
دوسری جانب روزنامہ امت کی ایک رپورٹ کے مطابق سندھ میں پیپلز پارٹی کے خلاف سیاسی اتحاد کا دائرہ اب وسیع ہوگیا ہے۔ گزشتہ عام انتخابات میں اس نوعیت کا الائنس محض گرینڈ ڈیموکرٹیک الائنس یعنی جی ڈی اے تک محدود تھا۔ اور یہ الائنس پیپلز پارٹی کو کاؤنٹر نہیں کر سکا تھا۔ یوں اسے تشکیل دینے کا مقصد فوت ہوگیا تھا۔ جبکہ پیپلز پارٹی اکثریت کے ساتھ صوبے میں حکومت بنانے میں کامیاب رہی تھی۔ اس بار اس الائنس کا حجم خاصا بڑا کر دیا گیا ہے۔ تاہم ملین ڈالر کا سوال ہے کہ کیا نیا سیاسی اتحاد پیپلز پارٹی کے مضبوط سیاسی قلعہ میں دراڑ ڈالنے میں کامیاب ہو جائے گا یا یہ تجربہ بھی ماضی کی طرح ناکام ہوگا؟یہ سوال جب جی ڈی اے کے چند رہنماؤں کے سامنے رکھا گیا تو ان کا لہجہ بظاہر پُراعتماد تھا کہ اس بار پی پی پی کو صوبے میں ٹف ٹائم ملے گا۔ اس اعتماد کی وجہ بیان کرنے سے پہلے انہوں نے گزشتہ انتخابات میں جی ڈی اے کی ناکامی کے اسباب بیان کر نا شروع کر دیے۔ جس میں بنیادی شکوہ یہ تھا کہ پچھلی بار جی ڈی اے کے ساتھ ہاتھ کیا گیا تھا۔ عین موقع پر اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ نے پیپلز پارٹی پر ہاتھ رکھ دیا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس نے خاص طور اندرون سندھ جھاڑو پھیر دی۔جے ڈی اے رہنما کے مطابق اس بار پچھلی ریت دہرائے جانے کا کوئی امکان نہیں کیونکہ اس وقت ہم اکیلے تھے اس بار ہم نے دیگر چار پانچ چھوٹی اور قومی سطح کی سیاسی پارٹیوں کو بھی الائنس کا حصہ بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ تاکہ دوبارہ دھوکا کھانے کے امکانات کم ہو جائیں۔ کیونکہ پہلے ناراض ہونے والے ہم اکیلے تھے۔ اب اتنے بڑے اتحاد کے سامنے پیپلز پارٹی کو ماضی کی طرح من مانی کی اجازت دے کر سب پارٹیوں کو ناراض کرنا کوئی افورڈ نہیں کر سکتا۔ یہی نکتہ ہماری امید کا محور ہے۔ ساتھ ہی ہمیں یہ اعتماد بھی ہے کہ اگر اس بار پی پی پی کو چھتری فراہم کرنے سے گریز کیا جاتا ہے تو نیا اتحاد الیکش میں اس سے نمٹ لے گا‘‘۔
نئے مجوزہ سیاسی اتحاد کی سرگرمیوں میں شریک ایک اور رہنما نے بتایا کہ ابھی صرف جے یو آئی، ایم کیو ایم پاکستان اور جی ڈی اے کے رہنماؤں کے مابین ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ آنے والے ہفتے میں ایک بڑی بیٹھک بھی متوقع ہے۔ جس میں مولانا فضل الرحمن اور پیر پگارا سمیت الائنس میں ممکنہ طور پر شامل ہونے والی مسلم لیگ ن سمیت دیگر پارٹیوں کے رہنما بھی شریک ہوں گے۔ رہنما کے بقول سندھ میں پیپلز پارٹی کا مقابلہ کرنے کیلیے نئے اتحاد میں نون لیگ اور اے این پی کے علاوہ سندھی قوم پرست جماعتوں کو بھی شامل کیا جائے گا۔ تاکہ ایک مضبوط اتحاد تشکیل پا سکے۔اس سلسلے میں رابطے جاری ہیں کیونکہ اس طرح مضبوط بڑا سیاسی اتحاد عام انتخابات
ترک اداکارہ نے سر پر گولی مار کر خودکشی کر لی
میں پیپلز پارٹی کے لیے حقیقی چیلنج بن سکتا ہے۔