پنجابیوں پر افغان تاجروں کا مال لوٹنے کا جھوٹا الزام کون لگا رہا ہے ؟

پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین کے انخلا کے لیے دی گئی 31 مارچ کی مہلت ختم ہونے کے بعد جہاں افغانوں کی ملک بدری شروع ہے وہیں دوسری جانب سوشل میڈیا پر ریاست مخالف عناصر کی جانب سے افغان مہاجرین کے حوالے جھوٹا پراپیگنڈا بھی زوروشور سے جاری ہے۔ سوشل میڈیا پر کہیں لوگوں پر پولیس کے لاٹھی چارج کی ویڈیوز لگا کر افغانوں پر تشدد کے دعوے کئے جا رہے ہیں کہیں لوٹ کھسوٹ دکھا کر افغان مہاجرین کے مال و متاع کو پاکستانی عوام کی جانب سے لوٹنے کے الزامات عائد کئے جا رہے ہیں۔اس دوران کئی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہیں جن میں افغان مہاجرین کو اپنے اہل و عیال سمیت واپس جاتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے جبکہ کچھ ویڈیوز میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہکار افغان مہاجرین کے خلاف کارروائیاں بھی کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔
اسی طرح سے ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر گذشتہ کچھ دنوں سے خوب وائرل ہورہی ہے جس کے بارے میں یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ پاکستان سے بے دخل کیے جانے والے کسی افغان کاروباری شخص کی دکان سے شہری سامان لوٹ رہے ہیں۔مذکورہ ویڈیو فیس بُک، ایکس اور ٹک ٹاک سمیت دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر وائرل ہے اور اسے شیئر کرنے والے صارفین کا دعویٰ ہے کہ پاکستان سے بے دخل ہونے والے افغان تاجر کی دکان سے سامان لوٹا جا رہا ہے۔
سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک شاپنگ مال میں نوجوانوں کا ہجوم ہے جو وہاں پڑے ہوئے کپڑوں کے پیکٹوں کو اٹھا کر تھیلوں میں بھر بھر کر لے جا رہے ہیں۔یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تو چند صارفین کی جانب سے دعویٰ کیا گیا کہ یہ افغانیوں کا مال ہے جو پنجاب کے عوام مال غنیمت سمجھ کر لوٹ رہے ہیں جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔
ویڈیو وائرل ہونے کے بعد چند صارفین ایکس کے فیچر ’گروک‘ سے سوال پوچھتے نظر آئے کہ کیا یہ مال پاکستان میں بسنے والے افغانیوں کا ہے؟ جس کے جواب میں گروک نے جواب دیا کہ اس ویڈیو میں دکھائی گئی چیزیں پاکستان میں رہنے والے افغانیوں کی ملکیت ہونے کا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہے۔تاہم اس حوالے سے کی جانے والی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ یہ شاید ستمبر 2024 میں کراچی کے ایک اسٹور میں لوٹ مار کا واقعہ ہے، جو غلط لیبل کیا گیا۔ افغانیوں کی جبری بے دخلی کے دوران پنجاب میں اسٹورز کی لوٹ مار کی واضح رپورٹس نہیں ہیں۔ لہٰذا، یہ دعویٰ متنازعہ اور غیر مصدقہ ہے۔
ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد اس کا چرچا سرحد پار بھی ہونے لگا۔ سابق افغان رکنِ پارلیمنٹ مریم سلیمان خیل نے ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ افغانیوں کے کاروبار کو پاکستان میں دن دیہاڑے لوٹا جا رہا ہے، ان کی جائیدادیں ضبط کی جا رہی ہیں اور انہیں ملک بدر کیا جا رہا ہے، یہ ظلم ہے۔ تاہم اس پوسٹ کے جواب میں ایک مقامی صحافی نعمت خان نے جواب میں کہا کہ مریم سلیمان خیل کا یہ دعویٰ بظاہر غلط معلوم ہوتا ہے کیونکہ یہ ویڈیو پرانی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس ویڈیو کو ایک فیس بک پیج کی جانب سے 24 مارچ کو بھی شیئر کیا گیا تھا۔ اور گروک کو ایک قابلِ اعتبار ذریعہ کے طور پر شمار نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ ویڈیو کراچی کے اسٹور کی نہیں ہے جیسا کہ دعویٰ کیا جا رہا ہے۔
اس حوالے سے کی جانے والی تحقیقات میں وائرل ویڈیو میں کیا جانے والا دعویٰ جھوٹا نکلا کہ ویڈیو میں نظر آنے والا سامان افغانی باشندوں کا ہے اور پاکستانیوں کی جانب سے اسے لوٹا جا رہا ہے کیونکی حقیقت میں یہ ویڈیو کراچی یا کسی اور علاقے کی نہیں بلکہ لاہور کی قدیمی اعظم مارکیٹ کی ہے۔
تحقیقات کے مطابق وائرل ویڈیو شفیق احمد نامی ٹک ٹاک صارف کی جانب سے 21 مارچ 2025 کو شیئر کی گئی تھی۔ویڈیو میں شور شرابے میں لوگوں کو کپڑوں کے بنڈل سمیٹتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے تاہم اس میں کسی بھی قسم کی بات چیت یا تبصرہ نہیں ہے اور نہ ہی کیپشن میں ویڈیو کے حوالے سے کوئی تفصیل لکھی گئی ہے۔
سوشل میڈیا پر ویڈیو کے وائرل ہونے کے بعد اب شفیق احمد نے ایک اور ویڈیو جاری کی ہے جس میں انہوں نے وائرل ویڈیو سے متعلق ان دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے وضاحت جاری کی ہے۔اس ویڈیو میں وہ کہتے ہیں کہ ’میری وائرل ہونے والی فیس بک ویڈیو پر کسی نے لکھا ہے کہ افغانوں کا مال پنجابی لوٹ رہے ہیں، یہ سارے دعوے جھوٹے ہیں۔‘
جیل سے رہائی کے لیے عمران اور اسٹیبلشمنٹ کی ڈیل کا کتنا امکان ہے ؟
’وائرل ویڈیو اعظم مارکیٹ لاہور کی ایک دکان کی ہے جس کا نام یحییٰ، ذکریہ اینڈ سجاد فیشن ہاؤس ہے، یہاں سٹار کولیکشن کا مال ہوتا ہے، یہاں عید کے دنوں میں تھوڑا زیادہ رش تھا، لیکن روزانہ کی بنیاد پر اتنا ہی مال اور ایسے ہی بیچا جاتا ہے،جیسا ویڈیو میں دکھائی دے رہا ہے۔ وائرل ویڈیو کے متعلق کیے جانے والے سارے دعوے غلط ہیں، لوگ کسی بھی ویڈیو پر کچھ بھی لکھ کر شیئر کر دیتے ہیں۔‘