*PTI کے علاوہ کن حکمران جماعتوں سے انتخابی نشان واپس لئے گئے؟*
الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے تحریک انصاف سے بلے کا انتخابی نشان واپس لینا اپنی نوعیت کا پہلا یا واحد واقعہ نہیں۔ ماضی میں پاکستان پر حکمرانی کرنے والی دو جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کو بھی ان کے انتخابی نشانات سے محروم کیا گیا تھا۔ ایک اور سابق حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ قائد اعظم اپنے انتخابی نشان سائیکل سے دستبردار ھو گئی تھی جبکہ سابق فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ کو بھی کالعدم قرار دے کر اس کے انتخابی نشان عقاب سے محروم کیا گیا ۔ ایک رپورٹ کے مطابق الیکشن کمیشن آف پاکستان نے انٹرا پارٹی انتخابات میں مبینہ طور پر خامیوں کی وجہ سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے ’کرکٹ بلا‘ کا مشہور انتخابی نشان واپس لے لیا ھے ، جس نے ملک کے انتہائی منقسم سیاسی ماحول میں ہلچل مچا دی ھے اس پیش رفت کے بعد مقبول سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر شعلہ بیان بحثیں شروع ہوگئیں۔ تاھم یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ کسی سرکردہ پاکستانی سیاسی جماعت سے اس کا انتخابی نشان چھین لیا گیا ہو۔ 29 مئی 2018 کو پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) 41 سالہ طویل قانونی جنگ کے بعد اپنے انتخابی نشان کے طور پر ’تلوار‘ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی تھی تاھم اس سارے عرصے میں کسی اور سیاسی جماعت کو یہ نشان نہیں دیا گیا۔ 2018 میں، ʼتلوار کے نشان کے لیے چار دعویدار تھے جن میں پی پی پی، صفدر عباسی کی قیادت میں پی پی پی- ورکرز، غنویٰ بھٹو کی سربراہی میں پی پی پی- شہید بھٹو اور ڈاکٹر تنویر زمانی کی زیر قیادت پیپلز موومنٹ آف پاکستان شامل ہیں۔ پیپلز پارٹی نے اپنے بانی ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں 1970 اور 1977 کے انتخابات تلوار کے نشان سے لڑے تھے۔ یہ نشان سابق فوجی حکمران جنرل ضیاء الحق کے دور میں 1977 کے انتخابات کے بعد الیکشن کمیشن کی فہرست سے حذف کر دیا گیا تھا اور پھر 2013 میں اسے بحال کر دیا گیا تھا۔ دو دیگر علامتیں – ہل اور ترازو – کو بھی 1977 میں ہٹا دیا گیا تھا۔ یاد رہے کہ 1977 میں ’ہل‘ پاکستان نیشنل الائنس (PNA) کا نشان تھا، جو نو سیاسی جماعتوں کا اتحاد تھا، جس نے پیپلز پارٹی کے خلاف ایک بلاک کے طور پر سیاسی مہم چلانے پر اتفاق کیا تھا۔ پیپلز پارٹی نے 2018 کے عام انتخابات ʼتیر کے نشان پر بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں پیپلز پارٹی اور سابق صدر آصف علی زرداری کی سربراہی میں پیپلز پارٹی-پارلیمینٹیرینز (PPP-P) کے درمیان اتحاد کے بینر تلے لڑے تھے۔ پیپلز پارٹی نے 1988، 1990، 1993 اور 1997 کے انتخابات تیر کے نشان سے لڑے تھے۔ 2018 میں، پاکستان مسلم لیگ-قائد (پی ایم ایل ق) نے اپنے روایتی نشان ʼسائیکل سے دستبردار ہو کر ʼٹریکٹر کو اپنے انتخابی نشان کے طور پر درخواست کی۔
اکتوبر 2023 میں الیکشن کمیشن نے سابق صدر جنرل پرویز مشرف مرحوم کی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ (اے پی ایم ایل) کی رجسٹریشن ختم کردی اور انتخابی نشان بھی واپس لے لیا۔الیکشن کمیشن نے آل پاکستان مسلم لیگ انٹرا پارٹی الیکشن تنازع پر محفوظ فیصلہ جاری کیا۔فیصلے میں کہا گیا کہ آل پاکستان مسلم لیگ کاکوئی پارٹی عہدیدار نہیں اور اب پارٹی کا کوئی وجود نہیں۔فیصلے کے متن کے مطابق اے پی ایم ایل 4 سال سے پارٹی اثاثوں کی تفصیلات بھی جمع نہ کرا سکی لہٰذا اسے ڈی لسٹ کیا جاتا ہے۔الیکشن کمیشن کا کہنا تھاکہ خودساختہ پارٹی عہدیدارن کی جانب سے انتخابی نشان کی درخواست مستردکی جاتی ہے اور اے پی ایم ایل کا انتخابی نشان عقاب اب مختص ہونے کیلئے دستیاب ہے۔ ماضی میں ایک اور تنازع میر حاصل بزنجو کی نیشنل پارٹی اور ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ کی بلوچستان نیشنل موومنٹ کے درمیان ’آری‘ کے نشان پر رھا تھا۔ یاد رھے کہ الیکشن کمیشن نے چند روز قبل اے این پی کے انٹرا پارٹی الیکشن کے حوالے سے کیس پر سماعت مکمل کر کے اس پر بھی فیصلہ محفوظ کر رکھا ھے۔ دوسری جانب تجزیہ کاروں نے الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کو پی ٹی آئی کیلئے جھٹکا قرار دیا ہے، لیکن یہ بھی کہا ہے کہ پی ٹی آئی کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
صحافی و تجزیہ کار مظہر عباس نے بتایا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پہلی بار کسی بھی پارٹی کے انٹرا پارٹی انتخابات کو مسترد کرکے تاریخ رقم کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’ای سی پی نے پی ٹی آئی کو اس کے انتخابی نشان بلے سے محروم کر دیا ہے۔ ماضی میں پیپلز پارٹی کو جنرل ضیاء کی حکومت میں انتخابی نشان تلوار سے بھی محروم کر دیا گیا تھا‘۔امریکی تجزیہ کار مائیکل کوگل مین نے کہا ہے کہ بلے کا انتخابی نشان چھن جانا ’پی ٹی آئی کے دوبارہ انتخابات میں شرکت کے امکانات کے لیے ایک اور دھچکا ہے‘۔الیکشن کمیشن کا ’یہ تازہ ترین اقدام پارٹی کی لچک کے بارے میں کچھ کہتا ہے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ پی ٹی آئی کے خلاف کیا اقدام کیا گیا ہے، یہ ثابت قدم رہنے میں کامیاب ہے‘۔مہینوں کے طویل کریک ڈاؤن، گرفتاریوں، عمران خان، ان کے حامیوں اور دیگر سرکردہ رہنماؤں کو جیلوں میں ڈالنے کے باوجود پارٹی ضمنی انتخابات جیتنے، امیدوار کھڑے کرنے، اور صرف گزشتہ چند دنوں میں ، بڑے ہجوم کو متحرک کرنے میں کامیاب رہی ہے‘۔پیپلز پارٹی کے رہنما شرجیل میمن نے الیکشن کمشن کے فیصلے پر کہا کہ بانی پی ٹی آئی نے ملکی اداروں کو داؤ پر لگایا۔ کسی بھی سیاسی جماعت پر پابندی کے خلاف ہیں۔ پی ٹی آئی سیاسی جماعت نہیں۔ الیکشن کمشن نے کیس کے میرٹ کو دیکھ کر فیصلہ کیا ہو گا۔ فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ میرٹ پر ہوتا تو پی ٹی آئی الیکشن نہ لڑ سکتی۔ بانی پی ٹی آئی نے ذاتی مفادات کیلئے ملکی سیاست کو داؤ پر لگایا۔ پی پی سے بھی تیر کا نشان واپس لیا گیا تھا۔ استحکام پاکستان پارٹی کی رہنما فردوس عاشق اعوان نے کہا پی ٹی آئی کا تصوراتی محل زمین بوس ہو گیا۔ اس نے اپنا بیانیہ ہی زمین بوس کر دیا۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنما اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ تحریک انصاف واحد جماعت نہیں جس کا انتخابی نشان واپس لیا گیا ہو۔ الیکشن کمشن نے پارٹی آئین کے مطابق انٹرا پارٹی انتخابات درست نہ کروانے پر پی ٹی آئی سے بلے کا انتخابی نشان واپس لے لیا۔ الیکشن کمشن کو فیصلے کا کلی اختیار ہے۔ رولز بناتے ہیں تو ان پر عمل کرنا چاہئے۔ پی ٹی آئی واحد جماعت نہیں جس کا انتخابی نشان واپس لیا گیا ہو، مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے انتخابی نشان بھی واپس لے لئے گئے تھے۔جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل امیر العظیم نے کہا ہے یہ الیکشن کمشن کا انتقام ہے جس پارٹی کو کارنر میٹنگ
کرنے کی اجازت نہیں اسے کہہ رہے ہیں انٹرا پارٹی الیکشن نہیں کروائے